فضائلِ عشرۂ رحمت

Sat, 2 Apr , 2022
2 years ago

خُدائے رَحمٰن عَزَّوَجَلَّ کا کروڑہا کروڑ اِحسان کہ اُس نے ہمیں ماہِ رَمَضَان جیسی عظیمُ الشّان نِعمت سے سَرفَراز فرمایا۔ ماہِ رَمَضَان کے فِیضَان کے کیا کہنے !اِس کی تو ہر گھڑی رَحمت بھری ہے۔اِس مہینےمیں اَجْر و ثَواب بَہُت ہی بڑھ جاتاہے۔نَفْل کا ثواب فَرض کے برابر اور فَرْض کا ثواب 70 گُنا کردیا جاتا ہے ۔بلکہ اِس مہینے میں تو روزہ دار کاسونا بھی عبادت میں شُمار کیا جاتاہے۔عَرش اُٹھانے والے فِرِشتے روزہ داروں کی دُعاء پرآمین کہتے ہیں اور ایک حدیثِ پاک کے مُطابِق رَمَضَان کے روزہ دار کے لئے دریا کی مچھلیاں اِفطار تک دُعائے مَغْفِرت کرتی رہتی ہیں۔‘‘ (اَلتَّرغیب والتَّرہیب ج2ص55حدیث6، دار الکتب العلمیہ)

رمضان المبارک کے چاند رات کے بعد 10 دن یہ عشرہ رحمت کہلاتے ہے ، 10 دن پورے ہونے کے بعد دسواں سورج غروب ہوگیا تو یہ عشرہ مغفرت شروع ہوگیا ، اب یہ 10 دن رہے گا، اب جیسے ہی 20 کا روزہ مکمل ہوا اور سورج غروب ہوگیا تو اب یہ کہ جَہَنَّمْ سے آزادی کا عشرہ شروع ہوگیا یعنی خصوصیت کے ساتھ پہلے عشرے میں رحمت کا نزول، دوسرے میں مغفرت ہےاور تیسرے میں جہنم سے آزادیاں۔

٭عشرہ رحمت: رحمتیں لٹاتا ہے لہذا اس حوالے سے ہم اس کے فضائل جانتے ہے وہ کیاہے نیزاس میں ہمیں کون سی دعاپڑھنی ہے۔

٭(مراۃ المناجیح جلد 3،صفحہ 141 ،تحت الحدیث،مکتبہ ضیاء القراٰن)میں ہے: پہلے عشرہ میں رب تعالیٰ مؤمنوں پر خاص رحمتیں فرماتا ہے جس سے انہیں روزہ، تراویح کی ہمت ہوتی ہے اور آئندہ ملنے والی نعمتوں کی استعداد(یعنی طاقت) پیدا ہوتی ہے۔

اس عشرہ کے ابتداء سے ہی جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں ا ور دوزخ کے دروازے بندکردیئے جاتے ہیں شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں۔ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔(مسلم،بخاری) (مراٰۃ المناجیح،ج:3،ص:132)۔

٭حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت جب رمضان کی پہلی رات آتی ہےاللہ عزوجل نظر رحمت فرماتا ہےجس پر اللہ پاک نظر رحمت فرمائےاس کو کبھی بھی عذاب نہیں ہوگا۔(اَلتَّرغیب والتَّرہیب ج2ص56حدیث7، دارالکتب العلمیہ،) اس مہینہ میں جو کوئی بھی گناہ کرتا ہے وہ اپنے نفس امارہ کی شرارت سے کرتا ہے نہ کہ شیطان کے بہکانے سے۔(مراٰۃ ،ج:3،ص:134)

٭حضرت سَیِّدُنا عبدُاللّٰہ ابن عباس ر َضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ رحمت عالم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ معظم ہے : ’’جب رَمضان شریف کی پہلی رات آتی ہے تو عرش عظیم کے نیچے سے مَثِیْرہ نامی ہوا چلتی ہے جوجنت کے درختوں کے پتو ں کو ہلاتی ہے، اِس ہوا کے چلنے سے ایسی دِلکش آواز بلند ہوتی ہے کہ اِس سے بہتر آواز آج تک کسی نے نہیں سنی۔اِس آواز کوسن کربڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ظاہر ہوتی ہیں یہاں تک کہ جنت کے بلند محلات پر کھڑی ہوجاتی ہیں اور کہتی ہیں :’’ہے کوئی جو ہم کو اللہ تَعَالٰی سے مانگ لے کہ ہمارا نکاح اُس سے ہو؟‘‘ پھر وہ حوریں داروغۂ جنت (حضرت)رِ ضوان (عَلَیْہِ وَالسَّلَام) سے پوچھتی ہیں : ’’آج یہ کیسی رات ہے؟‘‘ (حضرت) رِ ضوان (عَلَیْہِ السَّلَام) جواباً تَلْبِیَہ (یعنی لبَّیْک) کہتے ہیں ، پھر کہتے ہیں :’’یہ ماہِ رَمضان کی پہلی رات ہے، جنت کے دروازےاُمّتِ مُحمّد عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے روزے داروں کے لئے کھول دئیے گئے ہیں ۔ ‘‘(اَلتَّرغیب والتَّرہیب، ج 2 ،ص60، حدیث 23)

٭ بلعموم پورا ہی سال اوربلخصوص رمضان شریف میں ہمیں اس مقولہ کا مصداق بنا رہنا چاہیے’’ رِضائے مولیٰ ازہَمہ اَولیٰ‘‘ یعنی اللہ عزوجل کی مرضی سب سے بہتر ہے۔ یو تو اللہ پاک کی رحمت ہمارے اوپر سارا ہی سال رہتی ہے۔اور رمضان المبارک اس میں مزید اضا فہ ہوجاتا ہے نیز رمضان المبارک کے ابتدائی 10 دن یہ خصوصیت کے ساتھ اللہ پاک سے رحمت طلب کرنے کے ہے اسی لئےانہیں کہا ہی عشرہ رحمت جاتا ہے یعنی رحمت والے دس دن ۔تو لہذا ہمیں ان دس دنوں میں خصوصیت کے ساتھ اپنے رب کریم سے اس کی رحمت طلب کرنا چاہیئے ۔ اللہ پاک اپنے بندہ سے اس سے مانگنے کو پسند فرماتا اور اس کی رحمت سے بڑے بڑے گناہ گار بخشے جاتے ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۵۳) (پ:24/ الزمر:53) ترجمہ کنزالایمان:’’ تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ،اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو بےشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے ، بےشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

احادیث شریف میں ہے ۔پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ میں جبرئیل امین علیہ السلام حاضر ہوئے اس حال میں کے آپ منبر پر چڑھ رہے تھے اس وقت تین دعائیں کی جن پر آپ علیہ السلام نے امین کہا (پیارے آقا علیہ السلام کی زبان مبارکہ سے جاری ہونے والی کوئی بات رائیگا نھی جاتی) ان میں ایک دعا یہ تھی جس نے ماہِ رمضان کو پایا اور اپنی بخشش نہ کروا سکا تو اس پر آپ نے امین فرمایا۔ (صحیح ابن حبان،ح:410،باب حق الوالدین ،ج:1،ص:315، دارالکتب العلمیہ۔بیروت )

اَبرِ رحمت چھاگیا ہے اور سماں ہے نُورنُور

فضلِ رب سے مغفرت كا ہوگیا سامان ہے

پہلے عشرے کی دعا

رَبِّ اغُفِرُ وَارُحَمُ وَأَنُتَ خَیُرُ الرَّاحِمِينَ۔

ترجمہ:’’ اے میرے رب مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔‘‘