اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی تحریر کردہ کتب ورسائل سے پتہ چلتا ہے کہ 105 سے زائد علوم وفنون پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے قلم اٹھایا ہے(ماخوذ ازمعارف رضا، ص233، سال1991) جن میں دینی علوم مثلاً قرآن وحدیث ،فقہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ دیگرعلوم وفنون مثلاً سائنس، ریاضی، معاشیات،واقتصادیات ومالیات وغیرہ شامل ہیں،آپ رحمۃ اللہ علیہ نے علوم عقلیہ کی ابتدائی تعلیم تواپنے والد محترم مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ اور مرزا علی العلی رامپوری، مرزا غلام قادر بیگ اور مولانا ابو الحسین احمد نوری مارہروی رحمۃ اللہ علیہم سے حاصل کی لیکن ان علوم میں کمال اپنی خداداد صلاحیتوں سے حاصل کیا ، پھر اپنے والدِ محترم کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے دینی علوم کی طرف متوجہ ہوگئے اور اپنی گراں قدر خدمات سے اس امت کوایسا فیضیاب کیا کہ ہر ایک آپ کے گن گاتا نظر آتا ہے، والد صاحب کی نصیحت پر عمل اور دینی علوم کی ان خدمات کی برکت سے دیگرعلوم میں آپ کو نہ صرف کمال حاصل ہوا بلکہ کئی علوم وفنون کے بہت سے اصول وقواعد کے موجد ٹھہرے۔ (ماخوذ ازمعارف رضا، ص22-23، سال1981) کتب ورسائل کے ساتھ ساتھ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار بھی ان علوم وفنون سے لبریز نظر آتے ہیں۔

ان میں سے کچھ علوم درج ذیل ہیں:

(1) علم لغت(Vocabulary): الفاظ کی بناوٹ اور معانی کا علم۔

اس فن میں اعلیٰ حضرت کی دو کتابیں ہیں:(۱)اَحْسَنُِ الْجُلُوْہ فِی تَحْقِیْقِ المِیْلِ وَالذرَاعِ وَالْفَرْسَخِ وَالْغُلُوہ(۲)فَتْحُ الْمُعْطِی بِتَحْقِیْقِ مَعْنَی الْخَاطِی وَالْمُخْطِی۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۷۷ مکتبہ نبویہ لاہور)

(2) علم تاریخ(History):

اس فن میں اعلیٰ حضرت کی تین کتابیں ہیں: (۱)اِعْلَامُ الصَّحَابَۃِالْمُوَافِقِیْنَ لِلْاَمِیْرِ مُعَاوِیَۃَ وَاُمِّ الْمُؤْمِنِیْن(۲)جَمْعُ الْقُرْآنِ و بِمَ عَزْوُِہُ لِعُثْمَان(۳)سرگزشت وماجرائے ندوہ۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۸۹)

(3) علم تکسیر(Fractional Numeral Math):

(۱)اَطَائِبُ الْاِکْسِیْرِ فِی عِلْمِ التَّکْسِیْرِ۔(2) ۱۱۵۲مربَّعات(۳)حاشیہ اَلدُّرُّ الْمَکْنُوْن(4) رسالہ در علمِ تکسیر(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۲)

(4) علم توقیت(Reckoning of Time): اوقات نماز کا علم ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے تاکہ ہر نماز صحیح وقت پر ادا کی جائے، اعلیٰ حضرت اس فن میں بھی یکتائے زمانہ تھے ، آپ ہی نے سب سے پہلے متحدہ پاک وہند میں شمسی سال کے اعتبار سے اوقاتِ نماز کا نقشہ مرتب کیا تھا۔اس فن میں اعلیٰ حضرت نے اردو، فارسی اور عربی زبانوں میں کم وبیش 16 کتب وحواشی تحریر فرمائے: (۱)اَلْاَنْجَبُ الْاَنِیْقِ فِیْ طُرْقِ التَّعْلِیْقِ (۲)زِیْجُ الْاَوْقَاتِ لِلصَّوْمِ وَالصَّلٰوۃِ(۳)تاجِ توقیت(۴)کَشْفُ الْعِلّۃِ عَنْ سَمْتِ الْقِبْلَۃِ(۵)دَرْءُ الْقُبْحِ عَنْ دَرْکِ وَقْتِ الصُّبْح(۶)سِرُّ الْاَوْقَاتِ (7)تَسْہِیْلُ التَّعْدِیْلِ(8)جدولِ اوقات (9)طلوع وغروب نیرین(10)اِسْتِنْبَاطُ الْاَوْقَاتِ(11)اَلْبُرْہَانُ الْقَوِیْمِ عَلَی الْعَرْضِ وَالتَّقْوِیْمِ (12)اَلْجَوَاہِرُ وَالتَّوْقِیْتُ فِیْ عِلْمِ التَّوْقِیْتِ(13)رؤیتِ ہلالِ رمضان(14)جدولِ ضرب (15)حاشیہ جَامِعُ الْاَفْکَار(16)حاشیہ زُبْدَۃُ الْمُنْتَخَب۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۴)

(5تا7) علم نجوم، ہیئت وفلکیات(اسٹرولوجی واسٹرونومی): علم نجوم یعنی ستاروں اور سیاروں کے متعلق علم۔

علم ہیئت : وہ علم جس میں اجرام ِ فلکی ،زمین اور اس کی گردش و کشش وغیرہ سے بحث کی جاتی ہے ۔

اعلیٰ حضرت ستاروں اور سیاروں کی چالوں سے اتنے زیادہ باخبر تھے کہ جب آپ سے سوال کیا گیا کہ اہرامِ مصر کب اور کس نے تعمیر کیا تو آپ نے امیر المؤمنین مولی علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے قول کی روشنی میں اوراس فن میں اپنی مہارت سےجواب دیا کہ اسکی تعمیرات کو12,640 سال8 ماہ کا عرصہ گزرچکا ہے اور یہ تعمیرات سیدنا آدم علیہ السلام کی پیدائش سے بھی 5,750سال پہلے جنات نے کی تھی ۔(معارف رضا، ص16-17، مجلہ 2013)

ان علوم پر امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کی درج ذیل آٹھ کتابیں ہیں:

(1) مَیْلُ الْکَوَاکِبِ وَتَعْدِیْلِ الْاَیَّامِ (2)اِسْتِخْرَاجُ تَقْوِیْمَاتِ کَوَاکِب(3) زَاکِیُ الْبِہَا فِیْ قُوّۃِ الْکَوَاکِبِ وَضُعْفِہَا (4)رِسَالَۃُ ابعَاد قَمَر (5)حاشیہ حَدَائِقُ النُّجُوْم (۶)اِقْمَارُ الْاِنْشِرَاحِ لِحَقِیْقَۃِ الْاِصْبَاحِ(۷)اَلصِّرَاحُ الْمُوْجِزُ فِی تَعْدِیْلِ الْمَرْکَز(۸)جَادَۃُ الطُّلُوْعِ وَالْحَمْرِ لِلسَّیَّارَۃِ وَالنُّجُومِ وَالْقَمْرِ۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۵)

(9-8) علمُ الْحِسَاب وریاضی(Arithmetic & Mathematic): ان پر امام اہلسنّت علیہ الرحمہ کی درج ذیل دس کتابیں ہیں:

(۱)کَلامُ الْفَہِیْمِ فِی سَلَاسِلِ الْجَمْعِ وَالتَّقْسِیْمِ(2)جَدْوَلُ الرِّیَاضِی (3)مسئولیاتِ اَسہام(4)اَلْجَمَلُ الدَّائِرَۃِ فِی خُطُوطِ الدَّائِرَۃِ(5)اَلْکَسْرُ الْعُسْرٰی(6)زَاوِیَۃُ الْاِخْتِلَافِ الْمَنْظَرِ(7)عَزْمُ الْبَازِی فِی جَوِّ الرِّیَاضِی (8)کسورِ اَعشاریہ (9)معدنِ علومی درسنینِ ہجری، عیسوی ورومی(10)حاشیہ جامعِ بہادر خانی ۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۶)

(10) علمِ اَرْثْمَا طِیْقِی (Greek Arithmetic):

اس فن میں اعلیٰ حضرت کی تین کتابیں ہیں: (۱)اَلْمُوْہِبَاتُ فِی الْمُرَبَّعَاتِ (۲)اَلْبُدُوْرُ فِی اَوْجِ الْمَجْذُوْرِ(۳)کِتَابُ الْاَرْثْمَاطِیْقِی۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۷)

(11) علم جبر ومقابلہ(Algebra):

یہ علم حساب کی فرع ہے۔اس فن میں اعلیٰ حضرت کا ایک رسالہ ہے:(۱)حَلُّ الْمُعَادَلَات لِقَوِیِّ الْمُکَعَّبَاتِ (2)رسالہ جبرومقابلہ (3)حاشیہ اَلْقَوَاعِدُ الْجَلِیْلَۃ۔ (حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۷)

(12) علم الزیجات(Astronomical Tables):

اس علم میں اعلیٰ حضرت کی ایک کتاب ہے: (۱)مُسْفِرُ الْمَطَالِعِ لِلتَّقْوِیْمِ وَالطَّالِعِ(2)حاشیہ زیج بہادر خانی(3)حاشیہ فوائد بہادر خانی(4)حاشیہ برجندی (5)حاشیہ زلالات البرجندی (6)التعلیقات علی جامع بہادر خانی (7)التعلیقات علی زیج الایلخانی (8)التعلیقات علی الزیج الاجد (9)تحقیقات سال مسیحی۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۱۰۱، المصنفات الرضویہ،ص۴2)

(13) علم الجفر(Numerology Cum Literology):اس فن میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بغیر کسی استاد کےاس قدر مہارت حاصل کی کہ اس فن کے کئی قواعد آپ نے خود استخراج فرمائے،عربی زبان میں 6کتابیں ہیں: (1)اَلثَّوِاقِبُ الرَّضَوِیَّۃ عَلَی الْکَوَاکِبِ الدُّرِّیَّۃ(2)اَلْجَدَاوِلُ الرَّضَوِیَّۃ عَلَی الْکَوَاکِبِ الدُّرِّیَّۃ (3)اَلْاَجْوِبَۃُ الرَّضَوِیَّۃ لِلْمَسَائِلِ الْجَفَرِیَّۃ (4)اَلْجَفَرُ الْجَامِع (5)سَفرُ السَّفر عَنِِ الْجَفَرِ بِالْجَفَرِ(6) مُجْتَلَّی الْعُرُوسِ وَالنُّفُوسِ۔

(14) علم ہندسہ(Geometry): خطوط اور زاویوں کا علم ۔

(1)اَلْمَعْنَی الْمُجَلِّی لِلْمُغْنِی وَالظِّلِّی (2)اَلْاَشْکَالُ الْاِقْلِیْدَسْ (3)حاشیہ اصولِ ہندسہ (4)حاشیہ تحریرِ اقلیدس۔

(15) علم مثلث کروی (Science of spherical triangles):

اس فن میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی یہ کتابیں ہیں: (1)تلخیص علم مثلث کروی (2)رسالہ در علم مثلث کروی (3)وجوہ زوایا مثلث کروی۔(المصنفات الرضویہ،ص43)

(16) علم العروض(prosody):

اس فن میں امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کافارسی زبان میں ایک حاشیہ ہے : (1)حاشیہ میزان الافکار۔

(18-17) سائنس وہیئت (Science & Physics): اس فن پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی تحریروں اور فتاوی میں بیش بہا خزانہ عطا فرماتے ہوئے کئی سائنسی نظریات بھی پیش کئے ہیں ، اس فن پر آپ کی درج ذیل 3 اردوکتابوں اور 1 عربی حاشیہ کا پتہ چلا ہے: (1) نزولِ آیاتِ قرآن بسکونِ زمین وآسمان(2) فوزِ مُبین دَر رَدِّ حرکتِ زمین (3) مُعینِ مُبین بَہر دَورِ شمس وسکونِ زمین (4)حاشیہ اصولِ طبعی ۔

(19) علم کیمیا (Chemistry):

اس فن میں امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کی مہارت کا بہت سی تحریروں پتہ چلتا ہے بالخصوص فتاویٰ رضویہ میں جہاں تیمم کا بیان ہے اس میں آپ نے عمل احتراق (Combustion)کی پانچ صورتیں بیان فرمائی ہیں اور پھر ان پر تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے جواس فن میں آپ کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

(21-20)معاشیات ومالیات(Economics & Finance): اعلیٰ حضرت نے اس شعبہ میں بھی مسلمانوں کی نہ صرف بھرپور رہنمائی فرمائی بلکہ انہیں معاشی استحکام کا راستہ بھی دکھایا اس سلسلے میں آپ نے1912ء میں چار معاشی نکات بھی پیش کئے، اس موضوع پر آپ کی 3 کتابیں ہیں: (1)کِفْلُ الْفَقِیْہِ الْفَاہِمِ فِی اَحْکَامِ قِرْطَاسِ الدَّرَاہِم (2)تدبیرِفلاح ونجات واصلاح (3)اَلمُنٰی وَالدُّرَرْلِمَنْ عَمَدَ مَنِیْ آرْدَرْ

(22) علم ارضیات(Geology):یعنی وہ علم جس میں زمین اور اس کے حصوں کے متعلق گفتگو کی جاتی ہے، زلزلے کا تعلق بھی اسی علم سے ہے ۔ زلزلہ کیسے آتا ہے؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟زلزلہ مختلف علاقوں میں کیوں آتا ہے؟زلزلہ پوری دنیا میں ایک ساتھ کیوں نہیں آتا ؟ زلزلہ کبھی کم شدت کے ساتھ اور کبھی انتہائی شدت کے ساتھ کیوں آتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب اس فن کا ماہر ہی دے سکتا ہے، امام اہلسنّت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے جب سوالات پوچھے گئے تو آپ علیہ الرحمہ نے اپنی فنی مہارت سے ان تمام کے تسلی بخش جوابات مرحمت فرمائے، اسی طرح تیمم کے مسئلہ میں مٹی اور پتھروں کی اقسام وحالتوں پر اپنی تحقیق سے 107 ایسی اقسام کا اضافہ فرمایا ہے جن سے تیمم جائز ہے اور 73 وہ بھی بتائی ہیں جن سے تیمم جائز نہیں، مزید تفصیل کیلئے آپ کا رسالہ ’’ اَلْمَطَرُ السَّعِیْد عَلٰی نَبْتِ جِنْسِ الصَّعِیْد‘‘ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔

(23) علم حجریات(Petrology): یہ علم ارضیات کی ایک شاخ ہے جس میں پتھروں سے متعلق معلومات حاصل کی جاتی ہیں کہ کون سا پتھر، معدنیات، ہیرے جواہرات کہاں اور کیسے بنتے ہیں اور ان کو کس طرح تقسیم کیا جاسکتا ہے، Metalکی تعریف جتنی وضاحت کے ساتھ اعلیٰ حضرت نے فرمائی ہے اتنی وضاحت کے ساتھ علم حجریات والے بھی نہ کرسکے، اس فن میں اعلیٰ حضرت کے 3 رسائل ہیں: (1)حُسْنُ التَّعَمُّم لِبَیَانِ حَدِّ التَّیَمُّم(2)اَلْمَطَرُ السَّعِیْد عَلٰی نَبْتِ جِنْسِ الصَّعِیْد(3)اَلْجِدُّ السَّدِیْد فِیْ نَفْیِ الْاِسْتِعْمَالِ عَنِ الصَّعِیْد۔(ماخوذ ازمعارف رضا، ص17، مجلہ 2013)

(24) علم صوتیات: یہ علم ہیئت کی ایک اہم شاخ ہے جس میں آواز کی لہروں سے متعلق علم حاصل کیا جاتا ہے ، موبائل فون کے ذریعے ایک دوسرے تک آواز کا پہنچنا اسی طرح الٹرا ساؤنڈ کی مشینوں میں بھی آوازکی لہروں سے مدد لی جاتی ہے، اعلیٰ حضرت آواز کی لہروں سے بھی بھرپور واقف تھے ،’’اَلْکَشْفُ شَافِیَا حُکْمُ فُوْنُوْ جِرَافِیا‘‘ نامی کتاب اس فن پر آپ کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔(ماخوذ ازمعارف رضا، ص17، مجلہ 2013)

(25) علم البحر(Oceanography): اس علم کی ایک شاخ سمندری موجوں سے تعلق رکھتی ہے جسے Tidesکہا جاتا ہے اور یہ لہریں مختلف قسم کی ہوتی ہیں، ان میں سے ایک قسم کو ’’مدوجزر‘‘یعنی Lunar Tideکہا جاتا ہے،اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے’’فوز مبین ‘‘ میں ’’مدووجزر‘‘ کے سبب پر اپنا مؤقف نہ صرف مدلل انداز میں بیان فرمایا بلکہ اس فن میں بھی اپنی مہارت کا لوہا منوایا۔

(26) علم الوفق:

اس فن میں بھی اعلیٰ حضرت کی ایک کتاب ہے: (۱)اَلْفَوْزُ بِالْآمَال فِی الْاَوْفَاقِ وَالْاَعْمَالِ۔(حیات اعلیٰ حضرت،۲/۹۳)

(27-26) علم منطق وفلسفہ (Logics & Philosophy):

ان فنون سے متعلقہ امام اہلسنّت رحمۃ اللہ علیہ کی چند کتابیں یہ ہیں: (1)مقامع الحدید علی خد المنطق الجدید(2)الکلمۃ الملہمۃ فی الحکمۃ المحکمۃ (3)حاشیہ میر زاہد (4)حاشیہ ملا جلال (5)علم منطق پر ایک رسالہ۔ (المصنفات الرضویہ،ص۴۴)

یہ تو علوم عقلیہ میں آپ کی لکھی ہوئی کتابوں، رسائل اور تحقیقات کی کچھ تفصیل تھی جن کو آپ نے اپنی زندگی میں توجہ نہیں دی اور جن دینی علوم کی خدمت میں آپ متوجہ ہوئے ان کا کچھ اجمالی خاکہ بھی ملاحظہ فرمائیے:

(31-28) علم تفسیر، اصول تفسیر، تجوید وعلوم قرآن:

خاص ان علوم میں آپ کی 21 سے زائد کتابیں اور رسائل ہیں۔

(38-32)علم حدیث، اصول حدیث، اسانیدحدیث، تخریج احادیث،لغت حدیث، جرح وتعدیل اور اسماء الرجال:

ان علوم میں 59کتب ورسائل اور حواشی ہیں۔

(40-39)علم عقائد وکلام اور مناظرہ:

ان علوم پر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی 131کتب ورسائل اور حواشی ہیں۔

(44-41)علم فقہ، اصول فقہ، رسم المفتی اور علم الفرائض:

ان علوم پر آپ کی 266کتب ورسائل اور حواشی ہیں، جن میں 33جلدوں پر مشتمل عظیم فقہی انسائیکلو پیڈیا ’’العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ‘‘ اور7جلدوں پر مشتمل فقہِ حنفی کی مشہور کتاب ’’رد المحتار‘‘ پر آپ کے لاجواب حواشی ’’جد الممتار‘‘ شامل ہیں۔

(47-45)سیرت، فضائل ومناقب:

ان علوم پر 34کتب ورسائل حواشی ہیں۔

(50-48)تصوف، سلوک اور اذکار:

ان موضوعات پر 22کتابیں اور رسائل ہیں۔

(52-51)اخلاق، مواعظ ونصائح:

ان پر 8کتابیں ہیں۔

(55-53)ملفوظات، مکتوبات اور خطبات:

ان موضوعات پر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی 7کتابیں ہیں۔

(56)علم ادب:

اس موضوع پر 23کتابیں اور حواشی ہیں۔

(58-57)علم صرف ونحو:

ان دونوں علوم پر آپ کل 3 کتابیں ہیں جن میں ، علم نحو کی کتاب ’’ہدایۃ النحو‘‘ پر آپ کی عربی زبان میں وہ شرح بھی شامل ہے جو آپ نے صرف 10سال کی عمر میں تحریر فرمائی تھی۔

(59)علم تعبیر:

اس فن کی مشہور کتاب ’’تعطیر الانام‘‘ پر آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حاشیہ لکھا ہے۔

(ان تفصیلات میں مولانا عبد المبین نعمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب ’’المصنفات الرضویہ‘‘ صفحہ 18 تا 41 سے مدد لی گئی ہے)