زکوة اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے عائد فریضہ ہے ۔اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے جس کا تارک واجب القتل ہیں صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کا اس بات پر اجتماع ہے کہ ایسے شخص سے لڑائی کی جائے گی اور اگر وہ زکوٰة نہ دے تو اس کو قتل کردیا جائے گا اسی لئے عہدِ صدیقی اکبر میں منکرین زکوٰة کے خلاف باقاعدہ قتال ہوا جبکہ ٹیکس معروضی حالات میں وقتی طورپر لاگو کیا جاسکتا ہے پھر اس سے حاصل ہونے والی رقم کو امانت داری کے ساتھ امت اسلامیہ کی حفاظت یا بہبود کے لیے خرچ کیا جائے لیکن اگر اس کے بغیر گزارہ چلتا ہو تو پھر ٹیکس لگانا ظلم قرار پاتا ہے۔عہدِنبوت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ایک عورت نے بدکاری کرلی اس نے خود کو سزا کے لیے پیش کردیا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کو پتھر مار کر رجم کرنے کا حکم دیا اس کاخون حضرت خالد رضی اللہ عنہ پر بھی گرگیا انہوں نے اس عورت کے بارے میں برے الفاظ استعمال کئے تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا خالد رضی اللہ عنہ حوصلہ کرو اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ٹیکس لینے والا بھی ایسی توبہ کرے تو اس کو بھی بخش دیا جائے ۔ (صحیح مسلم سنن ابی داؤد)

زکوٰة اور عشر میں بھی فرق ہوتا ہے زکواة 2.5 فیصد قابل نصاب مال پر ہے جبکہ عشر5 سے 10 فیصد ہے اگر بارانی زمین ہو تو 10 فیصد اور بصورت دیگر 5 فیصد ادا کرنا ہوتا ہے اگر یہ ٹیکس ہوتا تو اس کا نصاب حکمرانوں پر چھوڑدیا جاتاجتنے فیصد سے تمہارا گزارا ہوتا ہے لاگو کرلیا کرو۔پھر زکوة عشر کے مصارف آٹھ ہیں جن کا ذکر سورة توبہ میں آیا ہے اس کے علاوہ کسی مصرف میں اس کو استعمال کرنا جائز نہیں جبکہ ٹیکس کے وسیع مصارف ہیں جہاں حکومت اس کو خرچ کرنا چاہے کرسکتی ہے،جبکہ مصارف کا معاملہ بہت حساس اور اس سے بالکل مختلف ہے ۔زکوٰة سال میں ایک دفعہ ادا کرنا فرض ہے جبکہ بعض ٹیکس روزانہ بعض ماہانہ بعض سالانہ اور بعض حسب موقع لاگو ہوتے ہیں۔زکوٰة کے بارے میں فرمان نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ صاحب حیثیت لوگوں سے لے کر انہیں فقرامیں تقسیم کردی جائے اگر کسی علاقے میں فقیر کم ہیں تو جو زکوٰة بچ جائے وہ بیت المال میں جمع ہوجاتی ہے جبکہ ٹیکس غریبوں اور امیروں سے لے کر مختلف قسم کے شعبہ جات اور مدات میں خرچ کئے جاتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے،اے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کے مال سے زکوٰة قبول فرمائیں اور اس زکوٰة کے ساتھ ان کو پاک کردیں جبکہ ٹیکس کا نظام سوائے ناگزیر قومی ضرورت کے ٹیکسوں کے عموماً ظلم اور چوری کے مشابہ ہیں تو پھر اس مال کے ساتھ مزید عوام پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں اس صورت میں ٹیکس کا نظام زکوة جسے اہم اسلامی نبوی فریضہ کے قائم مقام ہرگز نہیں ہوسکتا اللہ تعالیٰ سب کی حفاظت فرمائے۔