اللہ تعالٰی جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کو ذمہ عوام کے کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور حکمران بروز حشر اللہ تعالٰی کے سامنے  اپنی رعایا کا جواب دہ ہوگا۔ تواضع و انکساری : مسلمان حکمران کو چاہیے کہ وہ تمام مسلمانوں کے ساتھ تواضع و انکساری سے پیش آئے اور اپنے اقتدار کی طاقت کی وجہ سے کسی بھی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آئے ۔ حاکم اس بات پر یقین رکھے کہ اللہ پر متکبر اور جابر کو د شمن رکھتا ہے ۔ آئیے رعایا کے حقوق ملاحظہ کیجیئے۔

عدل و انصاف کرنا :اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :- وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ) اور عدل کرو بے شک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں ۔ حدیث شریف: ہمیں رعایا کے حقوق کو اچھے طریقے سے ادا کرنے والے عدل و انصاف کرنے والے حاکم ملیں۔ چنانچہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ حضور اکرم کا مالہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بے شک دنیا میں انصاف کرنے والے قیامت کے دن اللہ تعَالٰی کے سامنے موتیوں کے منبروں پر ہوں گے کیونکہ انہوں نے دنیا میں انصاف کیا-(تفسیردرسنشور،پ 26 الحجرات، تحت الآية : 562/7،9)

دھوکا نہ دینا : رعایا کا حق یہ بھی ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ دھوکا نہ کرے. چنانچہ حضرت سیدنا ا بو یعلی معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب اللہ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے۔ اور وہ اس حال میں مرے کے اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو اللہ اس پر جنت حرام فرمادے گا۔ (بخاری، کتاب الاحکام، باب من استرعى رعية فلم ينصح456/4،حدیث:7150)

عزت بچانا : رعایا کا حق یہ بھی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی عزت کی حفاظت کرے ۔ اس کی جان کی حفاظت کرے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرور کونین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے دنیا میں اپنے بھائی کی عزت کی حفاظت کی تو روز قیامت اللہ تعالٰی ایک فرشتہ بھیجے گا جو جہنم سے اسکی حفاظت کرے گا۔ (الترغیب والترہیب، کتاب الادب وغیرہ التر ہیب من الغیبتہ، رقم الحدیث 39 ، ج 3، ص 334)

غم خواری کرنا : ہمیں اپنے مسلمان بھائی کی غم خواری کرنی چاہیے ۔ اس کی تعزیت کرنی چاہیے۔ ان کا ادب و احترام

کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلیٰ اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی مصیبت زدہ کی تعزیت ( یعنی اس کی غم خواری) کی تو اسے مصیبت زدہ کے برابر اجر ملے گا۔ (الترغیب والترہیب رقم 6، ج 4،ص179)

سفارش کرنا : رعایا کو چاہیے کہ اپنے ضرورت مند بھائی کی حاجت روائی کرے ۔ اسکی سفارش کرے ۔ چنانچہ حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں کوئی سائل یا ضرورت مند حاضر ہوتا تو آپ فرماتے : ( حاجت روائی میں) اسکی سفارش کرو اجر پاؤ گے ، اللہ تعالٰی اپنے رسول کے ذریعے جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے۔(صحیح بخاری ، کتاب الادب ، رقم 6027 ، ج 4 ، ص 107)

رعایا کے بارے میں قیامت کے دن حاکم سے سوال ہوگا : رعایا کے بارے میں قیامت کے دن حاکم سے سوال ہوگا ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا ، عبد الله بن عمر سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ علم نے فرمایا : تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا ۔

پس لوگوں کا واقعی امیر ایک حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ اور ہر آدمی اپنے گھر والوں پر حاکم ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے بچوں پر حاکم ہے ۔ اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ اور غلام اپنے آقا ( سید) کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس جان لو کہ تم میں سے ہر ایک حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں (قیامت کے دن) پوچھ ہوگی۔ (صحیح بخاری شریف ، ح : 2554)