رعایا کے حقوق وہ قانونی اور احلاقی فرائض ہیں جو
ایک ریاست اور حکومت پر عوام کے فلاح و بہبود کے لیے عائد ہوتے ہیں یہ حقوق ہر
شہری کی بنیادی ضروریات کی تکمیل اور ان کی فلاح و بہبود کو یقینی بناتے ہیں
اسلامی نظریہ عالم انسانی حقوق کے معاہدے اور مختلف امید اور ان کا فروغ ریاست کی
ذمہ داری ہے۔
رعایا پر ظلم نہ کرنا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قاضی کے ساتھ اللہ ہوتا ہے جب تک وہ ظلم نہ کرے پھر جب وہ
ظلم کرتا ہے تو اس سے الگ ہو جاتا ہے اور شیطان اسے چمٹ جاتا ہے۔ (مراۃ المناجیح، 5/382)
رعایا کے درمیان درست فیصلہ کرنا: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: جب حاکم اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرے اور وہ فیصلہ درست ہو تو اس
کے لیے دو اجر ہیں اگر وہ اجتھاد کے ساتھ فیصلہ کرے اور اس میں غلطی کر جائے تو
بھی اس کے لیے ایک اجر ہے (فیضان فاروق
اعظم، 3/337)
رعایا پر سختی و تنگی نہ کرنا: حضرت
ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ جب اپنے اصحاب میں سے بعض کو اپنے
کاموں کے لیے بھیجتے تھے تو فرماتے تھے کہ خوشخبریاں دو متنفر نہ کرو اور آسانی
کرو سختی اور تنگی نہ کرو۔ (مسلم، ص 739، حدیث4: 252)
رعایا کی خبرگیری: ایک
مرتبہ امیر المومنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر سے
نکلے اور ایک گھر میں داخل ہوئے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے
چنانچہ صبح جب اس گھر میں جا کر دیکھا تو وہاں ایک نابینا اور اپاہج بڑھیا کو پایا
اور ان سے دریا فرمایا کہ اس آدمی کا کیا معاملہ ہے جو تمہارے پاس آتا ہے بڑھیا نے
جواب دیا ہوا اتنے عرصے سے میری خبر گیری کر رہا ہے اور میرے گھر کے کام کاج بھی
کرتا ہے حضرت ابو طلحہ اپنے اپ کو مخاطب کر کے کہنے لگے اے طلحہ تیری ماں تجھ پر
روئے تو امیر المومنین عمر فاروق کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا۔ (مراۃ المناجیح،1/116،
117)
رعایا کی حاجت و ضرورت کو پورا کرنا:
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
جسے اللہ مسلمانوں کی کسی چیز کا والی و حاکم بنائے پھر وہ مسلمان کی حاجت و ضرورت
و محتاجی کے سامنے حجاب کر دے اس طرح کے مظلوموں حاجت مندوں کو اپنے تک پہنچنے نہ
دے تو اللہ اس کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے سامنے آڑ فرما دے گا چنانچہ حضرت امیر
معاویہ نے لوگوں کی خدمت پر ایک آدمی مقرر فرما دیا۔ (مراۃ المناجیح، 5/373)