حقوق العباد میں سے رعایا کے حقوق بھی ہیں رعایا وہ
لوگ یا قوم ہوتی ہے جو کسی بادشاہ کی سلطنت میں آباد ہوں ہر نگران سے اس کے ماتحت
کے بارے میں پوچھا جائے گا ہر نگران سے اس کے ہر کام کا سوال ہوگا رعایا کے حقوق
کا معاملہ حقوق العباد سے ہے اور حقوق العباد کا معاملہ بہت سخت ہے اس لیئے چاہیے کہ
ہر کوئی اپنی ذمہ داری کو صحیح طریقے سے پورا کرے تاکہ بعد میں شرمندگی نہ اٹھانی
پڑے۔ شریعت نے رعایا کے کچھ حقوق متعین کیے ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:
1)رعایا کی مدد کرنا: پیارے
آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے بہترین حکام وہ ہیں جو تم سے محبت کریں اور تم اُن
سے محبت کرو تم انہیں دعائیں دو وہ تمہیں دعائیں دیں اور تمہارے بدترین حکام وہ
ہیں جن سے تم نفرت کر واور وہ تم سے نفرت کریں، تم اُن پر پھٹکار کرو وہ تم پر
لعنت کریں۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول الله ﷺ! کیا اس وقت ہم ان سے تلوار کے
ذریعے جنگ نہ کریں؟ فرمایا: نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کریں، اور جب تم میں
سے کوئی اپنے حاکم کو کسی گناہ میں ملوث دیکھے تو اسے چاہیے کہ اس گناہ کو برا
جانے مگر اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔ (مسلم، ص 795، حدیث: 4804)
نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا
ہے: میری ناراضی اس شخص پر شدت اختیار
کرجاتی ہے جوکسی ایسے شخص پر ظلم کرے جو میرے سوا کسی کو مددگار نہیں پاتا۔ (معجم صغیر،
1/31، حديث: 71)
2)سزا نہ دینا: سنن ابی داؤد
کی روایت میں اس طرح ہے: غلاموں میں سے جو تمہارے مزاج کے موافق ہو اسے وہی کھلا ؤ
جو خود کھاتے ہو اور وہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو اور ان میں سے جو تمہارے مزاج کے
موافق نہ ہو اسے بھی بیچ دو لیکن اللہ کی مخلوق کو عذاب نہ دو۔ (ابو داود، 4/439، حديث:
5161)
3)محبت کرنا: پیارے آقا ﷺ نے
ارشاد فرمایا: تمہارے بہترین حکام وہ ہیں جو تم سے محبت کریں اور تم اُن سے محبت
کرو تم انہیں دعائیں دو وہ تمہیں دعائیں دیں اور تمہارے بدترین حکام وہ ہیں جن سے
تم نفرت کر واور وہ تم سے نفرت کریں، تم اُن پر پھٹکار کرو وہ تم پر لعنت کریں۔
صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول الله ﷺ کیا اس وقت ہم ان سے تلوار کے ذریعے جنگ نہ
کریں؟ فرمایا: نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کریں، اور جب تم میں سے کوئی اپنے
حاکم کو کسی گناہ میں ملوث دیکھے تو اسے چاہیے کہ اس گناہ کو برا جانے مگر اس کی
اطاعت سے۔
4)معاف کرنا: حضور نبی مکرم
ﷺ نے غلاموں کے بارے میں ارشاد فرمایا: اگر وہ اچھا کام کریں تو قبول کرلو اور اگر
برائی کریں تو معاف کر دیا کرو لیکن اگر وہ تم پر غلبہ چاہیں تو انہیں بیچ دو۔ (الترغيب
و الترہیب، 3/167، حديث: 3490)
حاکموں کے لیے دعائے مصطفی:ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے اس
گھر میں رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ جو میری امت کے کسی معاملے کا
ذمہ دار بنے اور پھر ان پر سختی کرے تو تو بھی اسے مشقت میں مبتلا فرما اور جو
میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور اور ان سے نرمی سے پیش آئے تو تو بھی
اس سے نرمی والا سلوک فرما۔ (مسلم، ص 784، حدیث: 4722)