دین اسلام نے ہر مسلمان کے لیے چاہے وہ مرد ہو یا عورت کچھ حقوق مقرر کیے ہیں اور معاشرے کا نظام بہترین انداز پر چلنے کا انحصار معاشرے کے دو افراد پر ہوتا ہے ایک حکمران دوسری رعایا اور شریعت نے ان دونوں کے لیے حقوق مقرر کیے ہیں لیکن اس موضوع پر صرف رعایا کے حقوق پر اکتفاء کیا جائے گا کہ حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے تو اس بارے میں دین اسلام نے ہمیں بہترین تعلیم دی ہے

آئیے ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ ہو: پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا:مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔

یہ بات قابل غور ہے کہ حکمران اور رعایا کی اساس دین اسلام ہے یعنی یہ دونوں مسلمان ہے تو حکمران کو ایسا ہونا چاہیے کہ اس کی زبان یا ہاتھ سے رعایا کو تکلیف نہ ہو اور رعایا کو ایسا ہونا چاہیے کہ اس کے کسی فعل سے حکمران کو تکلیف نہ ہو۔

کیونکہ معاشرے کا نظام ان دونوں افراد سے مل کر پروان چڑھتا ہے لیکن حکمران کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قیامت کے دن حکمران سے ان کے ماتحت کے بارے میں سوال کیا جائے گا لہذا اس پر لازم ہے کہ وہ رعایا کے تمام لازم حقوق کا خیال رکھے۔ آئیے رعایا کے چند حقوق ملاحظہ ہوں جن کا پورا کرنا حکمران پر لازم ہے:

(1)سختی سے بچتے ہوئے نرمی کرنا: حضرت سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے اپنے اُس گھر میں رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور پھر اُن پر سختی کرے تو تو بھی اُسے مشقت میں مبتلا فرما اور جو میری اُمت کے کسی معاملے کا ذمہ داد بنے اور اُن سے نرمی سے پیش آئے تو تو بھی اُس سے نرمی والا سلوک فرما۔ (مسلم، ص 1061، حدیث: 8127)

(2)درگزر کرنا: حضور نبی مکرم،نور مجسم، ﷺ نے غلاموں کے بارے میں ارشاد فرمایا: اگر وہ اچھاکام کریں تو قبول کرلو اور اگر برائی کریں تو معاف کر دیا کرو لیکن اگر وہ تم پر غلبہ چاہیں تو انہیں بیچ دو۔ (الترغیب و الترہیب، 3/167، حديث: 3490)

(3) رعایا کے ساتھ خیرخواہی نہ کرنے پر وعید: حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، سیدُ المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کسی رعایا کا حکمران بنایا ہو اور وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گا۔ (بخاری، 4 / 456، حدیث: 7150)

(4)غرباء کی ہم نشینی اور غریب پروری کرنا: حکمران کو چاہیے کہ وہ اپنی رعایا میں سے ایسے لوگوں کی ہم نشینی اختیار کرنے میں رغبت نہ رکھے جو بہت دولت مند ہوں بہت طاقتور ہوں بلکہ اپنی رعایا میں ایسے لوگوں کی ہم نشینی اختیار کرے جو مالی اعتبار سے یا دیگر معاملات کے اعتبار سے کمزور ہوں ویسے بھی اگر انسان میں غرور و تکبر آجائے تو اس کو دور کرنے کا بہترین ذریعہ اپنے سے نچلے طبقے والوں کے ساتھ بیٹھنا اور ان کی غریب پروری کرنا ان سے ان کے حالات کے بارے میں پوچھنا اور ان کی مالی اور دیگر معاملات کے لحاظ سے ان کی مدد کی جائے۔

(5)عیب جوئی نہ کرنا: ایک حکمران کو ایسا ہونا چاہیے کہ وہ اپنی رعایا کے معاملات ان کے عیبوں کی جستجو میں نہ لگا رہے کسی کے عیب ڈھونڈنے کے بارے میں تو سخت وعیدیں قرآن و حدیث میں وارد ہوئی ہیں، اللہ کریم قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَّ لَا تَجَسَّسُوْا (پ 26، الحجرات: 12) ترجمہ کنز الایمان: عیب نہ ڈھونڈو۔

اس قدر عیب ڈھونڈنا قبیح فعل ہے کہ اللہ کریم نے قرآن کریم میں اس سے منع فرمایا ہے لہذا حاکم کو چاہیے کہ وہ رعایا کے عیبوں کی ٹوہ میں نہ لگا رہے۔

پیاری پیاری اسلامی بہنو! ہم میں سے کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی منصب یا ذمہ داری پر فائز ہوگا اور یقینا ہمارے ماتحت میں کچھ لوگ بھی ہوں گے تو ہمیں اپنی رعایا یعنی اپنے ماتحت کے ساتھ ایسا سلوک کرنا چاہیے جس میں خیرخواہی بھی ہو، نیکی کی دعوت بھی ہو، نرمی بھی ہو، خوش اخلاقی بھی ہو،الغرض موقع کی مناسبت سے بہتر سے بہترین رویہ رعایا کے ساتھ اختیار کیا جائے۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ رعایا کے جملہ حقوق ہر حکمران کو پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر مسلمان کو ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ہماری ہمارے والدین پیرومرشد اساتذہ کرام اور ساری امت محمدیہ ﷺ کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین