وہ چیزیں جو ہر فرد کو انصاف، عزت، اور حفاظت کی بنیاد پر حاصل ہیں۔ مثلاً، ہر شخص کا حق ہے کہ اُسے صحیح طور پر سلوک کیا جائے، اور اس کی زندگی اور مال کی حفاظت کی جائے۔ وہ چیزیں جو لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور مدد کرنے کی ذمہ داریوں پر مبنی ہیں۔ اپنے معاشرتی کردار کو ادا کریں اور قانون کی پاسداری کریں۔ اللہ تمہیں نہ اپنے حقوق کم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ مشکلات اور آزمائشوں کے وقت صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں۔ صبر کرنے والوں کو اللہ کا بڑا انعام ملے گا۔ علم حاصل کرنے اور اسے پھیلانے کی کوشش کریں۔ علم کا طلب ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اپنے خاندان کی دیکھ بھال اور ان کے حقوق کا خیال رکھیں۔ تمہاری عورتوں کے تم پر حقوق ہیں۔ معاشرت میں امن اور سکون قائم کرنے کی کوشش کریں۔ پرامن لوگ اللہ کے نزدیک بہت قیمتی ہیں۔ یہ اصول اسلامی معاشرت کی بنیادیں ہیں جو فرد اور معاشرے کے بہتر ترقی کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ رعایا کو اپنے حکمرانوں اور ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک اور احترام کا برتاؤ کرنا چاہیے۔ اسلامی تعلیمات میں حکم ہے کہ عوام کو انصاف، رحم دلی، اور احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے تاکہ معاشرت میں محبت اور تعاون کی فضا قائم رہے۔

رعایا کے معنی: رعایا کا مطلب ہے عوام یا لوگ جو کسی حکمران یا حکومت کے زیرِ نگرانی ہوں۔ دوسرے الفاظ میں، یہ عام لوگ ہوتے ہیں جو کسی ملک یا علاقے کے شہری ہوتے ہیں۔

رعایا کے حقوق:

1۔ معاشرتی حقوق: ہمدردی، تعاون، اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنا۔

2۔ معاشی حقوق: لوگوں کو معقول اور حلال رزق حاصل کرنے کا حق ہے۔ خدا رزق دینے والا ہے۔

3۔ امن و سکون: امن کی فضا فراہم کرنا اور کسی کو ظلم و زیادتی سے بچانا ضروری ہے۔ اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

4۔ خاندانی حقوق: خاندان کے افراد کے درمیان محبت اور انصاف قائم کرنا۔ تمہاری عورتوں کے تم پر حقوق ہیں۔

5۔صحت و صفائی: عوام کو صحت مند زندگی اور صفائی کا حق حاصل ہے۔ صاف ستھرائی ایمان کا حصہ ہے۔

6 ۔ ظلم نہ کرنا: حضرت عائذ بن عمر و سے مروی ہے کہ وہ عبید اللہ بن زیاد کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: اے لڑکے میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک بدترین حکمران وہ ہیں جو رعایا پر ظلم کریں، پس تو اپنے آپ کو ان میں شامل ہونے سے بچا۔ (مسلم، ص 785، حدیث: 4733)

یہ حقوق اسلامی اصولوں اور قرآن کی تعلیمات پر مبنی ہیں، جو ایک منصفانہ اور فلاحی معاشرت کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

حدیث مبارکہ: حضرت مغرور سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے ربذہ میں ملاقات کی، وہ اور ان کا غلام ایک ہی جیسا جوڑا پہنے ہوئے تھے تو میں نے اس کے بارے میں ان سے سوال کیا تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے ایک شخص سے گالی گلوچ کی اور اس کو ماں کی گالی دی تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اے ابوذر ! تم نے اس کو ماں کی گالی دی تم ایسے آدمی ہو کہ تمہارے اندر جاہلیت کی خصلت ہے تمہارے لونڈی غلام تمہارے (دینی) بھائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو تمہارا ماتحت بنا دیا ہے تو جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو اس کو چاہئے کہ جو خود کھائے اس کو کھلائے اور جو خود پہنے اس کو پہنائے اور تم ان خادموں کو ایسے کاموں کی تکلیف مت دو جو انہیں لا چار کر دے اور اگر تم ایسی تکلیف دو تو خود بھی کام میں ان کی مدد کرو۔