اللہ پاک جب کسی کو حکمرانی عطا کرتا ہے تو ان کے ذمہ عوام کے کچھ فرائض ہوتے ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے اور حکمران بروز حشر اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی رعایا کا جواب دہ ہو گا۔ کسی بھی ملک یا سلطنت کا نظام رعایا اور حکمرانوں سے مل کر چلتا ہے اور دینِ اسلام حکمرانوں کو رعایا کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید کرتا ہے جیسا کہ حکمرانوں پر رعایا کی دیکھ بھال اور ان کے درمیان دُرست فیصلہ کرنا لازم ہے۔

حضرت كعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حکمران نیک ہو تو لوگ بھی نیک ہو جاتے ہیں اور حکمران بُرا ہوتو لوگ بھی بگڑ جاتے ہیں۔ (اللہ والوں کی باتیں، 5/491) لہذا ہمیں رعایا کے حقوق و فرائض کا اچھے طریقے سے خیال رکھنا چاہیے۔

آپ ﷺ نے فرمایا تھا: جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو کسی رعیت کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیر خواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔ (بخاری، 4 /456، حدیث: 7150)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حکام و امراء پر عوام کو دھوکہ دینا اور ان کے حقوق غضب کرنا حرام و کبیرہ گناہ ہے اور ایسے حکام پر جنت حرام ہے۔

تم میں ہر شخص راعی و نگہبان ہے اور سب سے اس کی رعایا کے متعلق سوال ہوگا۔ (بخاری، 1/309، حدیث: 893)

رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حکومت، اپنے اہل و عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل وانصاف سے کام لیتے تھے۔ (مسلم، ص 783، حدیث: 4721 ملتقطا)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے حضورِ اقدس ﷺ کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! میری امت کا جو شخص بھی کسی پر والی اور حاکم ہو اور وہ ان پر سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی کر اور اگر وہ ان پر نرمی کرے تو تو بھی اس پر نرمی کر۔ (مسلم، ص 1061، حدیث: 8127)

حضرت عائذ بن عمر و سے مروی ہے کہ وہ عبید اللہ بن زیاد کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: اے لڑکے میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک بدترین حکمران وہ ہیں جو رعایا پر ظلم کریں، پس تو اپنے آپ کو ان میں شامل ہونے سے بچا۔ (مسلم، ص 785، حدیث: 4733)

حضرت ابو یعلی معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب اللہ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو اللہ اس پر جنت حرام فرما دے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ خیر خواہی کے ساتھ اُن کا خیال نہ رکھے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا۔ (بخاری، 4 /456، حدیث: 7150) مسلم شریف کی روایت میں یہ ہے کہ جو مسلمانوں کے اُمور پر والی بنایا جائے، پھر اُن کے لئے کوشش نہ کرے اور اُن سےخیر خواہی نہ کرے تو وہ اُن کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم، ص 78، حدیث: 366 بتغير قليل)

پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہارے بہترین حکام وہ ہیں جو تم سے محبت کریں اور تم اُن سے محبت کرو تم انہیں دعائیں دو وہ تمہیں دعائیں دیں اور تمہارے بدترین حکام وہ ہیں جن سے تم نفرت کر واور وہ تم سے نفرت کریں، تم اُن پر پھٹکار کرو وہ تم پر لعنت کریں۔ صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول الله ﷺ! کیا اس وقت ہم ان سے تلوار کے ذریعے جنگ نہ کریں؟ فرمایا: نہیں جب تک وہ تم میں نماز قائم کریں، اور جب تم میں سے کوئی اپنے حاکم کو کسی گناہ میں ملوث دیکھے تو اسے چاہیے کہ اس گناہ کو برا جانے مگر اس کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچے۔ (مسلم، ص 795، حدیث: 4804)

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے اس گھر میں رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اے اللہ جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور پھر ان پر سختی کرے تو تو بھی اسے مشقت میں مبتلا فرما اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور اور ان سے نرمی سے پیش آئے تو تو بھی اس سے نرمی والا سلوک فرما۔ (مسلم، ص 784، حدیث: 4722)

امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی ارشاد فرماتے ہیں کہ سر کار مکہ مکرمہ، سردار من منور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ ارشاد فرماتا ہے: میری ناراضی اس شخص پر شدت اختیار کرجاتی ہے جوکسی ایسے شخص پر ظلم کرے جو میرے سوا کسی کو مددگار نہیں پاتا۔ (معجم صغیر، 1/31، حديث: 71)

حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، سیدُ المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کسی رعایا کا حکمران بنایا ہو اور وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گا۔ (بخاری، 4 / 456، حدیث: 7150)

اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو تقریبا ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی طرح حاکم حکمران ہے کوئی آفیسر کوئی استاد، کوئی ناظمہ ہے اگر معاشرے کو پرامن اور خوشگوار بنانا چاہتے ہیں تو اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک و پیار و محبت و نرمی سے پیش آئین اور ان کے تمام حقوق ادا کریں اور اسی طرح جو احادیث مبارکہ میں ان کے حقوق بیان ہوئے ان پر عمل کریں تو ہم اپنے معاشرے کو پرامن اور خوشگوار بنا سکتے ہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہر مسلمان کے حقوق و فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔