صحابی کون ؟:

صحابی سے مراد جن و انس میں سے ہر وہ فرد ہے جس نے ایمان کی حالت میں محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت کی یاصحبت سے مشرف ہوا اور اسلام کی حالتوں میں ہی اسے موت آئی(حدیقۃ ندیہ، شرح مقدمۃ الکتاب ۱/۱۳)

صحابہ کا مقام:

صحابہ کرام علیہم الرضوان انبیا کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل ہستیاں ہیں، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔(مشکاة المصابیح کتاب المناقب ، ۲/۴۱۳،حدیث ۶۰۱۲)

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا، بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں۔(بخاری کتاب الشہادت2/193، حدیث: 2656)

رضائے الہی اور جنتی ہونے کی بشارت:

قرآن مجید میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کو رضائے الہی کی خوش خبری سنائی گئی ہے اور ان کا قطعی جنتی ہونا قران سے ثابت ہے اسی لیے تو امت محمدیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نعرہ ہے ۔

ہر صحابی نبی جنتی جنتی

چنانچہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: ترجمہ کنزالعرفان : ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں، اور اس نے ان کے لیے باغات تیار رکر رکھے ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے یہی بڑی کامیابی ہے۔ (سورہ توبہ 11/100)

آگ سے امان یافتہ :

یہ مقدس ہستیاں آگ سے محفوظ رکھی گئی ہیں یہ اس کی گن گرج نہیں سنیں گی، یہ قیامت کے دن امن میں ہوں گی چنانچہ ار شادہوا۔ترجمہ کنزالایمان :وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں وہ جہنم ک بھنک تک نہ سنیں گے وہ ہمیشہ اپنی من مانتی جی بھاتی مرادوں میں رہیں گے،قیامت کی وہ سب سے بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی فرشتے ان کا استقبال کریں گے یہ کہتے ہوئے کہ یہ تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا( سورۃالانبیاء 17/102)

اسی طرح نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا، اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا (ترمذی، کتا ب المناقب، 5/461، حدیث 3884)

بیش بہا اجرو ثواب کے حقدار:

فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے، میرے صحابہ کو گالی گلوچ نہ کرو، اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو اس کا ثواب میرے کسی صحابی کے مد بلکہ آدھا مُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔( بخاری کتا ب فضائل اصحاب النبی 2/522، حدیث ۔ 3673)

صحابہ کرام علیہم الرضوا ن کو یہ مقام و مرتبہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے ملا، کوئی بڑے سےبڑ ا ولی بھی کسی صحابی کے مر تبے کو نہیں پہنچ سکتا، صحابہ کرام علیہم الرضوان سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جان نثار، غلام اور جنتی ہیں، ان سب سے بھلائی کا وعدہ ہے، قرآن پاک میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ- ترجمہ کنزالایمان : اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا۔(النساء : 95)

حقیقی مومن :

صحابہ کر ام علیہم الرضوان عادل ، متقی اور نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سچے پیرو کار ہیں تو قرآن نے انہیں نوید سنائی ۔ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ(۷۴)تَرجَمۂ کنز الایمان: اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔(الانفال : 74)

ہدایت کیسے ملے؟

ہدایت، ہدایت یافتہ کی پیروی کرنے سے ملتی ہے حبیب خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کسی کی بھی اقتدا کرو گے فلاح و ہدایت پا جاؤ گے۔( مشکا ة المصابیح کتاب المناقب 2/414، حدیث 6018)

اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور

نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسولُ اللہ کی

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابۂ کرام کے فضائل

Wed, 2 Sep , 2020
3 years ago

صحابی وہ خوش نصیب مومن ہیں جنہوں نے ایمان کی حالت میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو جاگتی آنکھوں سے دیکھا یا انہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی ہو پھر ایمان پرخاتمہ بھی نصیب ہوا ہو۔

قرآن کی روشنی میں:

اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد فرمائی اور انہیں باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، ہمیشہ رہیں گے ان میں۔(القرآن ، سورة مجادلہ آیت نمبر۲۲)

اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اس کی رحمت اور کرم سے یہ اللہ کی جماعت ہے، سنتا ہے اللہ ہی کی جماعت کا میاب ہے۔(القرآن ، سورہ مجادلہ آیت ۲۲)

احادیث کی روشنی میں :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو بُرا نہ کہو اور گالی نہ دو، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی اگر اُحد پہاڑکے برابر سونا بھی خرچ کردے تو وہ ان کے ایک مد اور نہ ہی اس کے نصف تک پہنچ سکتا ہے۔(صحیح بخاری ، حدیث 3673 ، صحیح مسلم ،، حدیث 2541)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو برا بھلا کہتے ہیں تو کہو کہ تمہاری شرارت پر اللہ کی لعنت ہو۔(ترمذی، کتاب المناقب، حدیث، 3866)

راوی روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ صحابۂ کرام کو برا مت کہو کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت میں گزرا ہوا ان کا ایک لمحہ تمہارے زندگی بھر کے اعمال سے بہتر ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب المقدمہ، حدیث 162)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب سے اپنے صحابہ کے اختلاف کے متعلق سوال کیا جو میرے بعد ہوا، اللہ نے میری طرف وحی فرمائی ۔ اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمہارے صحابہ میرے نزدیک آسمان کے ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے بعض بعض پر افضل ہیں، لیکن سب کے سب نور ہیں، اے محبوب اگر ان میں بعد میں اختلاف ہوجائے تو جوان میں سے جس کی پیروی کرے وہ ہدایت پاجائے گا، پھر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو جان لو میرے صحابہ آسمان میں چمکتے ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔ (مشکاة ، مناقب صحابہ، حدیث 5762)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابہ کرام کے فضائل

Wed, 2 Sep , 2020
3 years ago

فضائل سے مراد وہ فضائل اور اوصاف ہیں جو پسندیدہ اور لائق مدح ہوں ۔  اور صحابی اس مسلمان کو کہتے ہیں جس نے بحالتِ بیداری میں اپنی آنکھوں سے سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا اور ایمان کی حالت میں اس کا خاتمہ ہوا۔

صحابہ کرام کے بہت سے فضائل ہیں جیسا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کرو گے فلاں و ہدایت پاجاؤ گے۔ (مشکوة المصابیح کتاب المناقب ، باب مناقب، صحابہ حدیث 6018)

صحابہ کرام تمام جہان کے مسلمانوں سے افضل ہیں روئے زمین کے سارے ولی غوث قطب ایک صحابی کے گردِ قدم کو نہیں پہنچتے، صحابہ میں خلفائے راشدین پر ترتیب ، خلافت افضل ہیں پھر عشرہ مبشرہ پھر بدر والے پھر بیعت رضوان والے پھر صاحبِ فضیلت کوئی صحابی فاسق نہیں سب عادل ہیں، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک کو پہنچے نہ آدھے کو۔(مراۃ جلد ہشتم ص،307)

یہ حضرات وہ ہیں جنہیں رب نے اپنے محبوب کی صحبت کے لیے چنا، صحابہ کرام کا ذکرخیر سے کرنا چاہیے کسی صحابی کو ہلکے یا کم الفاظ سے یاد نہیں کرنا چاہیے۔صحابہ کرام کے فضائل کے کیا کہنے جن صحابہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت پائی حضور سے علم و عمل حاصل کیے حضور کی تربیت پائی وہ تو انسان کیا فرشتوں سے بڑھ گئے۔(مراة جلد ہشتم ، ص ۳۱۲)

اسی طرح صحابہ کرام کے فضائل میں یہاں تک آتا ہے جن لوگوں کو اخلاص سے صحابہ کرام کی صحبت نصیب ہوئی ان کی خدمات میسر ہوئی ، وہ نچلی دوزخ سے محفوظ ہے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ سے بغض مجھ سے بغض ہے ،تواس کے برعکس صحابہ سے محبت مجھ سے محبت ہے صحابہ کی شان تو بہت اونچی ہے آپ نے فرمایا میرے صحاب کی مثال میری امت میں کھانے میں نمک کی سی ہے کہ کھانا بغیر نمک کے درست نہیں ہوتا یعنی جیسے کھانے میں نمک تھوڑا ہوتا ہے مگر سارے کھانے کو درست کردیتا ہے ایسے ہی میرے صحابہ میری امت میں تھوڑے ہیں مگر سب کی اصلاح اسی کے ذریعے ہے۔(میراث جلد ہشتم ح ، ۶۰۱۶ص ۳۱۴)

صحابہ کرام کے فضائل بہت سارے ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت پائی آخر ان کے فضائل کیوں نہ ہوں گے جن کے بارے میں خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمارہے ہیں جس سرزمین میں میرے کسی صحابی کی وفات یا دفن ہوں تو قیامت کے دن اس سرزمین کے سارے مسلمان ان صحابی کے جلوؤں میں محشر کی طرف چلیں گے اور یہ صحابی ان سب کے لیے روشن شمع ہوں گے ان کی روشنی میں سارے لوگ قبروں سے محشر تک اور محشر سے جنت تک پل صراط وغیرہ سے ہوتے ہوئے پہنچیں گے۔(مراة جلد ہشتم ص ، ۳۱۵)

سبحان اللہ کیسے پیارے فضائل ہیں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ہدایت کے تارے فرمایا کہیں کھانے میں نمک سے مثال دی کہیں تمام صحابہ کرام کو حق مانتے ہوئے ان کی تعظیم و توقیر کرنی چاہیے ، امت مسلمہ اپنی ایمانی زندگی میں صحابہ کرام کے حا جت مند ہیں امت کے لیے صحابہ کرام کی ا قتدا ہدایت ہے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابۂ کرام کی تعریف کر تے ہوئے مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان علیہم الرحمۃ الحنان فرماتے ہیں: شریعت میں صحابی وہ انسان ہے جو ہوش و ایمان کی حالت میں حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھے یا صحبت میں حاضر ہو اور ایمان پراس کا خاتمہ ہو جاوے۔(مراة المناجیع ج ۸، ص ۳۳۴)

صحابہ وہ صحابہ جن کی ہر صبح عید ہوتی تھی

خدا کا قرب حاصل تھا نبی کی دید ہوتی تھیْ

ان نفوس قدسیہ کی فضیلت میں قرآن پاک میں جا بجا آیات مبارکہ وارد ہوئی ہیں جن میں ان کے حسن عمل ، حسن اخلاق اور حسن ایمان کا تذکرہ ہے، دنیا میں ہی مغفرت اور انعامات اخروی کا مژدہ سنایا گیا ہے۔فرمانِ خدائے ذوالجلال ہے: اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴) تَرجَمۂ کنز الایمان:یہی سچے مسلمان ہیں ان کے لیے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی (الانفال ، 4)

ارشاد ربانی ہے: رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، تَرجَمۂ کنز الایمان:اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔(التوبہ : 100)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ نے میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو نبیوں اور رسولوں علیہم الصلوة والسلام کے علاوہ تمام جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی۔(مجمع الزوائد کتاب المناقب باب ماجا فی اصحابہ رسولُ اللہ 9/736 ، حدیث 16383 )

نمایاں ہیں اسلام کے گلستان میں

ہر اک گل پہ رنگ بہا ر صحابہ

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحابہ کی فضلت بیان کرتے ہوئے فرمایا جو شخص راہِ راست پر چلنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ ان لوگوں کے راستے پر چلے اور ان کی پیروی کرے جو اس جہاں سے گزر گئے، یہ لوگ رسول کریم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہیں اور یہ حضرات امت میں سب سے زیادہ افضل ہیں ان کے دل نیکوکار ان کا علم سب سے زیادہ گہرا ، ان کے اعمال تکلف سے خالی جنہیں اللہ نے اپنے نبی کی رفاقت، صحبت،اور خدمت دین کے لیے چنا ان کا فضل پہنچانو ان کے آثار کی پیروی کرو ، ان کے اخلاق اور سیرت اختیار کرو، یہ لوگ درست راہ پر قائم تھے۔

خلافت امامت ولایت کرامت

ہر اک فضل پر اقتدار صحابہ

یاد رہے کہ اہل سنت و جماعت کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکہ و رسل و انبیا علیہم السلام کے بعد خلفا اربعہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم تمام مخلوق سے افضل ہیں خلفائے راشدین کے بعد بقیہ عشرہ مبشرہ ، حضرات حسنین و اصحاب بدر و اصحاب بیعۃ الرضوان کے لیے افضلیت ہے اور یہ سب قطعی جنتی ہیں ۔

ہر صحابی نبی جنتی جنتی

سب صحابہ سے ہمیں تو پیار ہے

ان شا اللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ناشکری کی مختلف صورتیں

Wed, 2 Sep , 2020
3 years ago

خدائے احکم الحاکمین جل جلالہ کی بے شمار نعمتیں ساری کائنات کے ذرے ذر ے پر بارش کے قطروں سے زیادہ درختوں کے پتوں سے زیادہ ، دنیا بھر کے پانی کے قطروں سے زیادہ ، ریت کے ذروں سے بڑھ کر ہر لمحہ ہر گھڑی بن مانگے طوفانی بارشوں سے تیز برس رہی ہیں۔

جن کو شمارکرنا انسان کے بس کی بات نہیں اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔

وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۸) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کرسکو گے بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔(پ ۱۴، النحل ۱۸)

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠(۱۵۲)

ترجمہ کنزالایمان ۔ میرا حق مانو (شکر ادا کرو) اور میر ی ناشکری نہ کرو۔(پ ۲۔ البقرہ ۱۵۲)

اور ایک مقام پر اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے: لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے سنادیا کہ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے (پ ۱۳، ابراہیم ۰۷)

ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ کی نعمتوں پر شکر کرنا واجب ہے۔(تفسیر خزائن العرفان)

شکر اور ناشکری کی حقیقت :

شکر کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی نعمت کو اللہ کی طرف منسوب کرے اور نعمت کا اظہار کرے جب کہ ناشکری کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی نعمت کو بھول جائے اور اسے چھپائے۔(تفسیر صراط الجنان)

حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ بے شک اللہ جب تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا رہتا ہے اور جب اس کی ناشکر ی کی جاتی ہے تو وہ اسی کو عذاب بنادیتاہے۔

اور حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہہ الکریم نے ارشاد فرمایا:بے شک نعمت کا تعلق شکر کے ساتھ ہے اور شکر کا تعلق نعمتوں کی زیادتی کے ساتھ ہے، پس اللہ کی طرف سے نعمتوں کی زیادتی اسی وقت تک نہیں رکتی، جب تک کہ بندہ اس کی ناشکر نہیں کرتا۔(شکر کے فضائل ص ۱۱)

عبادت بغیر شکر کے مکمل نہیں ہوتی۔(تفسیر بیضاوی)

شکر تمام عبادتو ں کی اصل ہے۔(تفسیر کبیر)

حضرت شیخ ابن عطا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا گویا وہ ان کے زوال کا سامان پیدا کر تا ہے، اور جو شکر ادا کرتا ہے گویا وہ نعمتوں کو اسی سے باندھ کر رکھتا ہے۔ (التحریر والتنویر ج ۱، ص ۵۱۲)

نعمتوں کے بدلے ناشکری کا نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے۔

نعمتوں کی ناشکری میں مشغول ہونا سخت عذاب کا باعث ہے۔(تفسیر رازی ج ۱۹، ص ۶۷)

شکرکے فوائد:

۱۔اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا زیادہ نعمت کا سبب ہے۔

۲۔ شکر رب عزوجل کی اطاعت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

۳۔ شکر میں نعمتوں کی حفاظت ہے۔

۴۔شکر اللہ والوں کی عادت ہے۔

۵۔ شکر نعمتوں کی بقا کا ذریعہ ہے۔

۶۔شکر ادا کرنا گناہوں کو چھوڑنے کا سبب ہے۔

۷۔شکر کی توفیق عظیم سعادت ہے۔

۸۔شکر ادا کرنا معرفتِ نعمت کا ذریعہ ہے۔

ناشکری کے نقصانات:

۱۔ ناشکری نعمتوں کے زوال کا ذریعہ ہے۔

۲۔ناشکری اللہ کو ناراض کرنے کا سبب ہے۔

۳۔ ناشکری باعث ہلاکت ہے۔

۴۔ناشکری اللہ کے عذاب کو بلانا ہے۔

۵۔ناشکری نعمتوں میں رکاوٹ ہے۔

۶۔ناشکری اللہ کو ناپسند یدہ ہے۔

۷۔ ناشکری ایک بڑا گناہ ہے۔

ناشکری کی مختلف صورتیں:

۱۔دل میں گناہ کی نیت کرنا۔

۲۔زبان سے شکایت کرنا

۳۔بُرے کام کرنا۔

۴۔ بدگمان رہنا

۵۔اللہ کے فضل و احسان سے ناامید ہونا۔

۶۔ اللہ سے خوش نہ ہونا

۷۔اللہ کی نافرمانی کرنا۔

۸۔ اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا۔

۹۔ اللہ کی یاد سے غافل رہنا

۱۰۔ حرام کھانا۔

۱۱۔ احسان جتانا۔

۱۳۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اپنا کمال سمجھنا۔

۱۴۔ دوسروں کی نعمتوں کو دیکھ کر حسد کرنا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے امین۔

میں ہردم کرتا رہوں تیرا شکر ادا یا الہی

تو ناشکری سے مجھے محفوظ رکھ یا الہی

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ناشکری کی مختلف صورتیں

Wed, 2 Sep , 2020
3 years ago

اللہ پاک کی بے شمار بے انتہا نعمتیں ہیں، جو بارش کے قطروں کی طرح برس رہی ہیں ان نعمتوں کو شمار نہیں کیا جاسکتا، اس کا اعلان اللہ پاک نے اس طرح فرمایا:

وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۸)

تَرجَمۂ کنز الایمان: اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کرسکو گے بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔(پ14، النحل:18 )

ربِّ کریم کی ان بے شمار نعمتوں کے باوجود انسان میں ناشکری کا پہلو پایا جاتا ہے، ناشکری کی مختلف صورتیں ہیں کبھی انسان اعضا کی ناشکری کرتا ہے کبھی کسی کے مال واسباب کو دیکھ کر ناشکری میں مبتلا ہوجاتا ہے اورکبھی کسی کا منصب و اقتدار اسے ناشکری میں مبتلا کردیتا ہے۔اعضا کی ناشکری کی صورت: تمام اعضا کو اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری کے کاموں میں استعمال کریں اگر ان اعضا سے نافرمانی والے کام کئے تو یہ اعضا کی ناشکری کہلائے گی۔

مال و اسباب میں ناشکری کی صورت: کسی کا مال و مکان دیکھ کر یہ سوچنا فلاں کے پاس تو اتنا مال ہے مگر میں بمشکل دو وقت کی روٹی کھاتاہوں، فلاں کے پاس تو عالیشان مکان ہے مگر میں تو دو کمروں کے ٹوٹے پُھوٹے گھر میں رہتا ہوں۔

منصب واقتدار میں ناشکری کی صورت:اسی طرح کسی کا منصب واقتدار (Status) دیکھ کر یہ سوچنا کہ اس کے نوکر چاکر ہیں آگے پیچھے گُھومتے رہتے ہیں کار میں آتا ہے، وغیرہ وغیرہ اور میرے پاس تو سائیکل بھی نہیں بسوں میں دھکے کھاتا ہوں۔ناشکر ی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس معاملے میں سب سے بڑا عمل دخل نفسانی خواہشات کابھی ہے ۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ ”انسان کی خواہشات کا پیالہ کبھی نہیں بھرتا کیونکہ اس میں ناشکری کے چھید ہوتے ہیں“۔ علاج: جن کے ساتھ ایسامعاملہ ہوانہیں چاہئے کہ دنیاوی نعمتوں میں اپنے سے نیچے کی طرف نظر کرے مثلاً موٹر سائیکل کی سہولت ہے تو کار والے کی طر ف نظر کرنے کی بجائے سائیکل والے کی طرف نظر کرے، سائیکل والے کو چاہئے کہ پیدل سفر کرنے والے کو دیکھے، اس طرح ناشکری کا پہلو ذہن میں نہیں آئے گا۔

دوسری طرف شکر کے فضائل پر غور کریں کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اللہ پاک اپنے بندوں کو شکر کی توفیق عطا فرماتا ہے تو پھر اسے نعمت کی زیادتی سے محروم نہیں فرماتا کیونکہ اس کا فرمانِ عالی شان ہے:

لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷)

تَرجَمۂ کنز الایمان: اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے۔

(پ13، ابراہیم: 7)

ہمیں اپنے ربِّ کریم کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے اور عافیت طلب کرنی چاہئے کہ ہمارے ہزار ہا ہزار گناہ کرنے کے باوجود اللہ پاک ہم سے اپنا رزق نہیں روکتا۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نفسِ راضِیَہ نصیب فرمائے، ہمیں اپنی نعمتوں سے مالا مال فرمائے اور ان نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ناشکری کی مختلف صورتیں

Wed, 2 Sep , 2020
3 years ago

ناشکری شکر کی ضدہے ،یعنی ہر وہ شے جن کا شکر ادا کرسکتے ہیں ان کا شکر ادا نہ کرنا یہ ناشکری ہے ناشکری کی مختلف صورتیں ہیں ناشکری کی بہت بری صورتیں یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کاشکر ادا نہ کرنا اللہ پاک نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے، مثلا آنکھ ، کان ، ناک بلکہ انسان کا اپنے سارا جسم ہی باعث نعمت ہی نعمت ہے اگر انسان ان کا غلط استعما ل کرے تو یہ اللہ پاک کی بہت بڑی ناشکری ہےـ مثلا ہمیں آنکھ عطا فرمائی ہمیں چاہیے کہ اس سے ہمیشہ اچھا ہی دیکھیں، ناکہ فلمیں ڈرامے اور بدنگای وغیرہ وغیرہ،

دیگر اعضا کا ن سے گانے باجے سن کر انسان ناشکری کرتا اور زبان سے فحش کلام و گالیاں دے کر ناشکری کا ارتکاب کرتا ہے۔ ناشکری کی ایک دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنے محسن کے احسان کو ہی بھول جاتا ہے کہ تم نے مجھ پر کون سے احسانات ہے، قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ ۔ بے شک آدمی اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے (پ ۳۰، العدیت ۶)

اللہ پاک نے ہم پر بے شمار احسانات فرمائیں، لیکن انسان ناشکری پر ناشکری کرتا ہے ۔

ایک واقعہ پیش خدمت ہے کسی بزرگ کے پاس کوئی شخض کہتا ہے مجھے اللہ پاک نے کچھ نہیں دیا، ان بزرگ نے فرمایااچھا کچھ نہیں دیا ؟بتا ہاں کچھ نہیں دیا؟ تو آپ نے اسے کہا کہ ایسا کر ایک آنکھ دے دو اور دس لاکھ لے لو، وہ کہنے لگا میں حضور آنکھ دوں گا، تو بوڑھا ہوجاؤ ں گا تو بزرگ نے فرمایا ایک بازو دے دو دس لاکھ لے اس نے کہا پھر انکار کا بزرگ نے اسی طرح ایک ایک چیز گنوائی او ر مگر وہ نا ہی کرتا رہا پھر بزرگ نے فرمایا کہ تم لاکھوں کی Property  لے کر گھوم رہے ہو اور کہتے ہو کہ اللہ نے مجھے کچھ نہیں، لہذا ہمیں اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ ناشکری عذاب کا باعث ہے، حضرت سیدنا امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں بے شک اللہ عزوجل جب تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کو نوازتا ہے اور جب اس کی ناشکری کی جائے تو وہ اسی نعمت کو ان کے لئے عذاب بنادیتا ہے۔

ہمیں ناشکری نہیں کرنی چاہیے، ہر حال میں شکر ہی ادا کرنا چاہیے کیونکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: ترجمہ کنزالایمان۔ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا۔(پ ۱۳، ابراہیم ،آیت۷)

آخر میں ایک اہم بات کہ ہمیں نعمتوں میں اپنے سے پیچھے والے کو دیکھنا چاہیے اور عبادت میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھنا چاہیے، یہ ذہن ہوگا تو اللہ نے چاہا تو ناشکری سے بچے رہیں گے اللہ پاک ہم سب کو ناشکری سے بچائے کیونکہ ناشکری سے نعمت کے چھن جانے کا ڈر ہوتا ہے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ناشکری کی مختلف صورتیں

Wed, 2 Sep , 2020
3 years ago

اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، جن کا شمار کرنا ناممکن ہے اگر ہم اپنے آس پاس جہاں کہیں بھی دیکھیں تو ہمیں ہر طرف اللہ عزوجل کی نعمتیں نظر آئیں گی، دینِ اسلام ،ایمان ، ہمارےا عضا ء، والدین ، وقت ، دن و رات وغیرہ الغرض اللہ عزوجل کی اتنی نعمتیں ہیں کہ کوئی بھی قلم انہیں لکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا گویا کہ ہم اپنے رب کی نعمتوں کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں، اب ہم یہ غورکریں کہ ہم اپنے رب کی کتنی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں اور کتنی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں ؟ تو یقینا ً ہمیں یہ یاد بھی نہیں ہوگا کہ ہم نے کتنی اور کس طرح اپنے رب کی نعمتوں کی ناشکری کی ہے۔

ناشکری کے متعلق اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّهٖ لَكَنُوْدٌۚ(۶)

بے شک آدمی اپنے رب کا بڑا ناشکر ہے(پ ۳۰، العدیت ، آیت ۶)

اس آیت کے تحت حضرت سیدنا حسن بن ابوحین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرہ ہے کہ مصیبتیں گنتا رہتا ہے اور نعمتیں بھول جاتا ہے۔

انسان کے پاس اگر ایک چیز ہو تو دو کی خواہش کرتا ہے ،دو ہوں تو تین کی خواہش کرتا ہے، غریب ہو تو امیر ہونے کی خواہش کرتا ہے اور امیر ہو تو مزید امیر ہونے کی خواہش کرتا ہے یہاں تک کہ انسان اپنے رب کی موجودہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس کی نعمتوں کی ناشکری میں مصروف رہتا ہے

چنانچہ حضرت سیدنا امام حسن بصری علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں بیشک اللہ عزوجل جب تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا رہتا ہے اور جب اس کی ناشکری کی جاتی ہے تو وہ اسی نعمت کو ان کے لیے عذاب بنادیتا ہے۔ (شکر کے فضائل ص 27)

انسان مختلف صورتوں میں اپنے رب کی ناشکری کرتا ہے اپنے اعضا کے ذریعے اپنے رب کی ناشکری کرتا ہے، مثلا فلمیں ، ڈرامے دیکھ کر آنکھوں کی ناشکری، گانے باجے سن کر کانوں کی ناشکری، گالی گلوچ اور تلخ کلامی کرکے زبان کی ناشکری لوگوں کو ایذا دے کر ہاتھوں کی ناشکری،

گناہوں کی طرف جا کر پاؤں کی ناشکری، رزق میں عیب نکال کر اور اسے ضائع کرکے رزق کی ناشکری وقت ضائع کرکے وقت کی ناشکری

والدین کی نافرمانی کرکے والدین جیسی نعمت کی ناشکری ،الغرض کہ انسان اپنے رب کی طرح طرح سے ناشکری کرتا ہے ناشکری کی مختلف قسموں میں سے ایک بدترین قسم حسد ہے،

حسد ایک ایسی چیز ہے جس کے سبب انسان نہ صرف اپنے رب کی نعمتوں کی ناشکر کرتا ہے بلکہ دوسروں کی نعمت کے چھن جانے کی تمنا کرتا ہے اس کے سبب اس کی اپنی نعمتیں بھی ضائع ہوجاتی ہیں، انسان کو چاہیے کہ وہ امور دنیا میں اپنے سے بلند مرتبے والے کے بجائے اپنے سے کم تر مرتبے والے کو دیکھے اگر بلند مرتبے والے کو دیکھے گا تو احساس کمتری اور حسد میں مبتلاہوجائے گا اور گر کم مرتبے والے کو دیکھے گاتو اسے اللہ عزوجل کی نعمتوں کی قدر اور اس کا شکر بجالانے کا ذہن ملے گا اس کے متعلق حضور نبی کریم روِف الرحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (امور دنیا) میں اپنے سے کم مرتبہ والے کو دیکھا کرو کیونکہ یہی زیادہ مناسب ہے تاکہ جو اللہ عزوجل کی نعمت تم پر ہے اسے حقیر نہ سمجھنے لگو۔(سنن ترمذی، ج ۴، ص

۲۳

، حدیث ۲۵۲۱)

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رب کی بے شمار نعمتوں کی قدر کرکے اس کا شکر ادا کریں تاکہ وہ رب ہمیں مزید اپنی نعمتوں سے نوازے۔

اللہ کریم ہمیں اپنی ناشکری والے کاموں سے بچا کر اپنا شکر گزار بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


نا شکری کی مختلف صورتیں

Wed, 2 Sep , 2020
3 years ago

ہم میں سے  بہت سے لوگ ساری نعمتوں کے ہونے کے باوجود ناشکری کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اس سے نا صرف وہ اپنی صحت کو داؤ پر لگاتے ہیں بلکہ ایک پوری نسل کو جسے انہوں نے سنوارنا تھا تباہی کی طرف جھونک دیتے ہیں ناشکری کرنے والے کو اللہ تعالی پسند نہیں فرماتا اوراس سے پھر اس کے گمان کے مطابق ہی معاملہ فرماتا ہے ۔

ناشکری کی مختلف صورتیں ہیں مثلا ذرا سی تکلیف پہنچی تو واویلا شروع کر دیا یہ نہ دیکھا اللہ نے کتنی اور نعمتوں سے نوازہ ہے ۔ بیمار ہوئے تو لگے ہائے ہائے کرنے بندہ سوچے اللہ پاک ہمیں اس سے بھی خطرناک بیماری لگا سکتا تھا منفی سوچوں کی بجائے یہ سوچیں۔ جب بھی اللہ پاک کی طرف سے کوئی بیماری کوئی آزمائش آتی ہے وہ ہماری بھلائی کے لئے آتی ہے، تو رویے میں ناشکرا پن نہ ہو گا بلکہ شکر گذاری آئے گی، ہمیں بعض اوقات علم نہیں ہوتا کہ ہم اپنے رویوں سے کس قدر ناشکر ے پن کی انتہا کر دیتے ہیں۔ ہمارے پاس ہر چیز اللہ پاک کی امانت ہے ان میں سے اللہ سبحانہ و تعالی اگر ایک نعمت بھی ہم سے لے لیتا ہے تو بجائے الٹی سیدھی بولنے کے یہ سوچیں اللہ تعالی با اختیار ہے وہ چاہے تو ہم سے سب کچھ چھین لینے پر قادر ہے صبر وشکر سے دوسری نعمتوں پر شکر گذاری کیجئے نہ کہ ناشکر ے پن کی انتہا کر دے بندہ۔

قران پاک سورہ ابراہیم آیت نمبر 7 میں ارشاد خداوندی ہے کہ:

اگر تم میری نعمتوں پر شکر کرو گے تو میں تمہیں مزید دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے ۔

آئیے اسی ضمن میں ہم اپنے پیارے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیث مبارکہ بھی پڑھ لیتے ہیں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جو تھوڑی نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ نعمتوں کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالی کا بھی شکر ادا نہیں کرتا اور اللہ تعالی کی نعمتوں کو بیان کرنا شکر ہے اور انہیں بیان نہ کرنا ناشکری ہے(شعب الاایمان الثانی من شعب الاایمان ,الحادیث 9119)

اللہ تعالی اپنے کرم سے ہمیں اپنا شکر گذار بندہ بنائے اور اپنی عطا کردہ ہر نعمت کی ناشکری سے محفوظ فرمائے امین ثم اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ناشکری کی مختلف صورتیں

Wed, 2 Sep , 2020
3 years ago

ناشکری بہت بری عادت ہے اور اس کے بارے میں قرآن و حدیث میں کئی وعیدیں آئی ہیں اور ساتھ ہی اس کے کئی نقصان بھی ہیں، جس کا مشاہدہ بخوبی کرسکتے ہیں، کہ علم کی وجہ سے لوگو ں نے ناشکری کو محدود کردیا، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص یہ نہ کہے کہ اللہ کا شکر ہے تو یہ ناشکرہ بلکہ ہمیں قول اور فعل دونوں سے شکر ادا کرنا چاہیے۔

ناشکری کی چند مختلف صورتیں بیان کرتا ہوں۔

۱۔ اسراف کرنا۔ یہ بھی ناشکری کی صورت ہے۔

۲۔فرائض ادا نہ کرنا

۳۔ اللہ کی راہ میں مال نہ خرچ کرنا یہ مال کی ناشکری ہے

۴۔ غیبت، چغلی بہتان وغیرہ، زبان کی ناشکری ہے۔

۵۔ شراب خانوں ، جوؤں کے اڈوں کی طرف جانا پیر کی ناشکری ہے۔

۶۔ گندے خیالات کی طرف دل کو جمانا یہ دل کی ناشکری ہے۔

۷۔ خلاف شڑع تجارت کرنا یہ بھی ناشکری کی ایک صورت ہے

۸۔ خلاف شرع تجارت کرنا یہ بھی ناشکری کی ایک صورت ہے۔

۹۔ اولاد اور گھر والوں کی صحیح تربیت نہ کرنا اور دین کی طرف نہ بلانا یہ بھی ای ک طرح ناشکری ہے

ان چند صورتوں سے امید ہے کہ قارئین کی آنکھیں کھلی ہوں گی ، اور اس معاشرے کی بدحالی کا بھی بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا، معزز قارئین اللہ تعالیٰ کی جو بھی نعمت ملے اور اسے ہم اس کی رضا اور اس کے احکام کے مطابق استعمال کریں گے تو یہ اس کا شکر اور اس کے احکام کے خلاف اور ناراضی والے کام کریں گے تو یہ ناشکری ہے، اللہ ہمیں شکر ادا کرنے اور ناشکری سے بچائے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


دعوت اسلامی کی مجلس مالیات کے تحت  25اگست2020ء بروز منگل نگران مجلس مالیات پاکستان محمد مزمل عطاری نے  بذریعہ زوم رسید بکس ڈیپارٹمنٹ کے ریجن ذمہ داران کا مدنی مشورہ کیا جس میں محمد مزمل عطاری نے شرکا کو چرم قربانی کی رسید بکس کی تقسیم کاری کے متعلق مدنی پھول دیتے ہوئے جدول کا جائزہ کیا اور ای رسید کے نفاذ کے اہداف طے کئے ۔(رپورٹ: غلام الیاس عطاری ملتان پاکستان ذمہ دار رسید بکس ڈیپارٹمنٹ)


دعوت اسلامی کی مجلس مکتوبات و اوراد عطاریہ کے تحت23اگست 2020ء بروز  اتوار کراچی ریجن کے کوئٹہ زون میں آقا ﷺ کی دکھیاری امت کی غمخواری کے پیش نظر تعویذات عطاریہ سے متعلق ذمہ دارن کی تربیت کا سلسلہ ہوا ۔

مبلغ دعوت اسلامی نے کراچی ریجن میں نئے بستے کھولنے جیسے کئی امور پر ذمہ داران کو مدنی پھول دیئے جس پر حاضرین نے حیدر آباد ریجن میں مزید تعویذات عطاریہ کے بستے کھولنے کی نیت کا اظہار کیا ۔(رپورٹ: محمد جنید عطاری مدنی رکن مجلس مکتوبات و اوراد عطاریہ )