بد شگونی کی تعریف:

شگون کا معنیٰ ہے ” فال لینا “ یعنی کسی چیز، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا، اسی وجہ سے برا فال لینے کو بدشگونی کہتے ہیں۔

شگون کی قسمیں:

بنیادی طور پر شگون کی دو قسمیں ہیں۔1۔برا شگون لینا، 2۔ اچھا شگون لینا۔

علامہ محمد بن احمد الانصاری رحمۃُ اللہِ علیہ نقل کرتے ہیں:اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو، اس کے بارے میں کوئی کلام اچھا ہو، اگر برا ہو تو بدشگونی ہے، شریعت نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی پائے تکمیل تک پہنچائے اور جب برا کام سنے تو اس کی طرف توجہ نہ دے۔

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ ۚوَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ ؕاَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۳۱)

ترجمہ کنز الایمان:تو جب انہیں بھلائی ملتی کہتے یہ ہمارے لیے ہے اور جب برائی پہنچتی تو موسی اور اس کے ساتھ والوں سے بدشگونی لیتے سن لو ان کے نصیبہ(مُقَدَّر) کی شامت تو اللہ کے یہاں ہے لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں ۔(پ 9، اعراف:131)

مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:"جب فرعونیوں پر کوئی مصیبت(قحط سالی وغیرہ) آتی تھی تو حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھی مؤمنین سے بدشگونی لیتے تھے، کہتے تھے کہ جب سے یہ لوگ ہمارے ملک میں ظاہر ہوئے ہیں، تب سے ہم پر مصیبتیں بلائیں آنے لگیں۔"

حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے بدشگونی لی اور جس کے لئے بدشگونی لی گئی، وہ ہم میں سے نہیں۔

بد شگونی کا حکم:

حضرت امام محمد آفندی رومی برکلی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: بدشگونی لینا حرام اور نیک فال یااچھا شگون لینا مستحب ہے۔

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! نہ چاہتے ہوئے بھی بعض اوقات انسان کے دل میں برے شگون کا خیال آ ہی جاتا ہے، اس لئے کسی شخص کے دل میں بدشگونی کا خیال آتے ہی اسے گناہگار قرار نہیں دیا جائے گا، کیونکہ محض دل میں برا خیال آ جانے کی بنا پر سزا کا حقدار ٹھہرا نے کا مطلب کسی انسان پر اس کی طاقت سے زائد بوجھ ڈالنا ہے اور یہ بات شرعی تقاضے کے خلاف ہے۔

بد شگونی کے 5 اسباب و علاج :

1۔بدشگونی کا پہلا سبب اسلامی عقائد سے لاعلمی ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ انسان تقدیر پر ان معنوں میں اعتقاد رکھے کہ ہر بھلائی اور برائی اللہ نے اپنے علمِ ازلی کے موافق مقدر فرما دی ہے، جیسا ہونے والا تھا، جو جیسا کرنے والا تھا، اپنے علم سے جانا اور وہی لکھ دیا۔

2۔بد شگونی کا سبب عورتوں میں توکل کی کمی ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ جب بھی کوئی بدشگونی دل میں آئے تو ربّ پر توکل کریں، اِنْ شَاء َاللہ بدشگونی کا خیال دل سے جاتا رہے گا۔

3۔بدشگونی کا تیسرا سبب بد فالی کی وجہ سے کام سے رُک جانا ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ جب کسی کام میں بدفالی نکلے تو اسے کرگزریں اور اپنے دل میں اس خیال کو جگہ نہ دیجئے۔

4۔بد شگونی کا چوتھا سبب اس کی ہلاکت خیزیوں اور نقصانات سے بے خبری ہے کہ بندہ جب کسی چیز کے نقصان سے ہی باخبر نہیں ہے تو اس سے بچے گا کیسے؟ اس کا علاج یہ ہے کہ انسان بدشگونی کی ہلاکتوں کو پڑھے، ان پر غور کرے اور ان سے بچنے کی کوشش کرے۔

عورتوں میں بدشگونی سے چند نقصانات:

بدشگونی دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے خطرناک ہے، یہ عورت کو وسوسوں کی دلدل میں اتار دیتی ہے، چنانچہ وہ ہر چھوٹی بڑی چیز سے ڈرنے لگتی ہے، وہ اپنی پرچھائی سے بھی خوف کھاتی ہے، اس وہم میں مبتلا ہوتی ہے کہ دنیا کی ساری بدبختی و بدنصیبی اسی کے گرد جمع ہو چکی ہے اور دوسرے لوگ پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں، ایسی عورتیں اپنے پیاروں کو بھی وہمی نگاہوں سے دیکھتی ہیں، جس سے دل میں کُدورت(یعنی دشمنی) پیدا ہوتی ہے۔

٭بد شگونی کی شکار عورتوں کا اللہ پاک پر اعتماد اور توکل کمزور ہوجاتا ہے۔

٭اللہ پاک کے بارے میں بدگمانی پیدا ہوتی ہے۔

٭تقدیر پر ایمان کمزور ہو جاتا ہے۔

٭بدشگونی کی شکار عورتوں کے لئے شیطانی وسوسوں کا دروازہ کھلتا ہے۔

٭بد شگونی کی وجہ سے اگر رشتے توڑ دیئے جائیں تو آپس کی ناچاقیاں جنم لیتی ہیں۔

٭جو عورتیں اپنے اوپر بدفالی کا دروازہ کھول لیتی ہیں، انہیں ہر چیز منحوس نظر آنے لگتی ہے۔

٭کسی کے گھر پر کوئی اُلّو کی آواز سن لی تو اعلان کر دیتی ہے کہ اس گھر کا کوئی فرد مرنے والا ہے۔

٭نئی دلہن کے ہاتھ سے اگر کوئی چیزگر کر ٹوٹ جائے تو اسے منحوس قرار دیتی ہیں، اور بات بات پر اس کی دل آزاری کرتی ہیں۔

5۔بدشگونی کا پانچواں سبب روز مرہ کے معمولات میں وظائف شامل نہ ہونا ہے، اس کا علاج اعلی حضرت، امام اہلسنت، پروانۂ شمع رسالت، مولانا شاہ امام احمد رضا خان کچھ یوں ارشاد فرماتے ہیں:"بدشگونی کے خطرے، وسوسے جب کبھی پیدا ہوں، ان کے واسطے قرآن کریم و حدیث شریف سے چند مختصر نافع(فائدہ دینے والی) دعائیں لکھتا ہوں، انہیں ایک ایک بار آپ اور آپ کے گھر والے پڑہیں، اگر دل پختہ ہوجائے اور وہ وہم جاتا رہے تو بہتر، ورنہ جب وہ وسوسے پیدا ہوں، تو ایک بار پڑھ لیں اور یقین کیجئے کہ اللہ اور رسول کے وعدے سچے اور شیطان ملعون کا ڈرانا جھوٹا، اللہ کی مدد سے وہ وہم ختم ہو جائے گا اور اصلاً کبھی کسی طرح نقصان نہ پہنچے گا اور وہ دعایہ ہے:لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا ۚهُوَ مَوْلٰىنَا ۚوَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ(۵۱)

ترجمہ کنز الایمان: ہمیں نہ پہنچے گا مگر جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا وہ ہمارا مولیٰ ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ چاہیے۔(پ 10، التوبہ:51)