معزز قارئین! دینِ اسلام اپنے ماننے والوں کو ایسی زندگی گذارنے کا درس دیتا ہے جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی پاسداری ہو. نیز ایک مسلمان کی ذاتی اور معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کے حوالے سے بھی رہنمائی کرتا ہے. اسلام کی روشن تعلیمات اور چمکتے اصولوں کا ایک بہترین پہلو یہ بھی ہے کہ اسلام میں کسی شخص،چیز، جگہ یا وقت کو منحوس جاننے کا کوئی تصور نہیں یہ محض وہمی خیالات ہوتے ہیں۔

میرے آقا اعلی حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا:شرعِ مطہّر میں اس(بدشگونی) کی کچھ اصل نہیں،لوگوں کا وہم سامنے آتا ہے. شریعت میں حکم ہے: جب کوئی شگونِ بد گمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو۔ (بدشگونی،ص 8)

شگون کے معنی ہے فال لینا یعنی کسی چیز، شخص، وقت وغیرہ کو اپنے حق میں اچھا یا برا سمجھنا. اچھا سمجھا جائے تو اسے اچھا شگون لینا کہتے ہیں اور اگر برا سمجھا جائے تو اسے بدشگونی لینا کہتے ہیں.حدیثِ مبارکہ میں ہے: جس نے بدشگونی لی اور جس کیلیے بدشگونی لی گئی وہ ہم میں سے نہیں۔ (المعجم الکبیر، 162/18، حدیث:355)دینِ اسلام میں بدشگونی لینا حرام ہے جبکہ نیک فال لینا جائز و مستحب ہے۔

بدشگونی لینے جیسی فضولیات میں اگر چہ مرد بھی پیچھے نہیں رہتے لیکن عموماً اس طرح کے معاملات میں عورتیں آگے آگے ہوتی ہیں. عورتوں میں پائی جانے والی چند بدشگونیوں پر نظر ڈالتے ہیں اور یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ان کی کوئی اصل نہیں:

1. اگر شادی شدہ عورت الٹی چادر اوڑھ لے تو اس کی ساس مر جائے گی۔

2. سر کے نیچے لگائے جانے والے تکیہ پر اگر کوئی پاؤں رکھ دے تو وہ تکیہ لگانے والے کے سر میں درد ہوجائے گا۔

3. ایک گلاس میں پانی تھا اور اس پر غلطی سے کسی کا پاؤں لگ گیا تو اس پانی کو ” ٹھوکر لگا پانی “ کا نام دیا جائے گا اور اب اس پانی پینے والے کا گلا خراب ہوجائے گا۔

4. اگر کسی گھر میں بلی روئے تو اس گھر میں کسی کی وفات ہوجائے گی۔

5. مریض کی چارپائی پر کوئی شخص کُہنی (elbow) ٹکا کر نہ بیٹھے ورنہ مریض کی طبیعت مزید بگڑ جائے گی۔

اللہ پاک ہمیں اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ان فضولیات سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا ربَّ العالمین