مضمون:عورتوں میں پائی جانے والی 5 بدشگونیاں
کسی
شخص،جگہ،چیز یا وقت کو منحوس جاننے کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے۔یہ محض وہمی
خیالات ہوتے ہیں۔چنانچہ حدیث پاک ہے۔
رسول اکرم،نور
مجسم صلی اللہ علیہ
والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اچھا یا برا شگون لینے کے لیے پرندہ اڑانا،بدشگونی لینا اور طرق(یعنی کنکر پھینک کر یا ریت میں لکیر کھینچ کر فال نکالنا) شیطانی کاموں میں سے ہے۔ (ابوداود،کتاب الطب،باب فی الخط وزجرالطیرع 4\22 حدیث،3907)
مفسر شہیر
حکیم امت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں:اسلام
میں نیک فال لینا جائز ہے، بدفالی،بدشگونی لینا حرام ہے۔ (تفسیر نعیمی،9\119)
شگون کا معنی ہے فال لینا یعنی کسی چیز،شخص،عمل
،آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا برا سمجھنا۔اگر اچھا سمجھا تو اچھا شگون یا
نیک فال ہے اور اگر برا سمجھا تو بدشگونی ہے۔
نیک فال لینا مستحب ہے جبکہ بدفالی یا بدشگونی
لینا شیطانی کام ہے۔
زندگی کے
بہت سے معاملات میں عورتیں بہت سے کاموں میں بدشگونی کا شکار ہوتی ہیں جن میں سے 5
بدشگونیاں درج ذیل ہیں جو عورتوں میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔
1:- دلہن
کا چھت پر جانا:-
شادی کے قریب وقت میں دلہن کو چھت پر بلکل
نہیں جانے دیا جاتا یہ سمجھا جاتا ہے کہ چھت پر جانے سے دلہن کو آفات اور بلاؤں کا
سامنا کرنا پڑے گا۔
2:- خالی
قینچی چلانا:-
اکثر عورتیں یہ سمجھتی کہ اگر کسی نے
خالی قینچی چلائی تو گھر میں جھگڑا ہو گا یا جس نے خالی قینچی چلائی وہ ضرور کسی
سے لڑائی کریں گی۔
3:- سورج
گرہن کو منحوس سمجھنا:-
سورج گرہن کے وقت حاملہ عورت چھری سے کوئی چیز نہ کاٹے کہ بچہ پیدا ہو گا تو
اس کا ہاتھ یا پاؤں کٹا یا چرا ہوا ہو گا۔
4:-خالی
جھولا نہ جھلاؤ:-
اس میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ نومولود بچے
کو نقصان ہو گا یا بچے کی پیدائش نہیں ہو گی۔
5:- چمچہ
یا ہنڈیا چاٹنا:-
یہ بھی تصور پایا جاتا ہے کہ اگر لڑکی چمچہ
یا ہنڈیا چاٹ لے تو اس کی شادی پر ضرور بارش ہو گی یا اولے پڑیں گے۔
ایسی ھی اور بھی بہت سی بدشگونیاں ہمارے
معاشرے میں پائی جاتی ہیں جیسے:- بچوں کو جھاڑو سے نہ مارو کہ پتلا ھو جائے گا،
مہمان کی رخصتی کے بعد گھر میں جھاڑو دینے کو منحوس سمجھنا،آنکھ پھڑکنا کہ کوئی
مصیبت آئے گی،دودھ گر گیا تو کوئی پریشانی آئے گی،کسی اور کا کنگھا استعمال کرنے
سے دونوں میں جھگڑا ہوتا ہے، رات کو آئینہ دیکھنے سے چہرے پر جھریاں پڑتی ہیں،
مغرب کی اذان کے وقت تمام لائیٹیں روشن کر دینی چاہئیں ورنہ بلائیں اترتی ہیں
وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب صرف وہمی خیالات ہوتے ہیں شریعت میں ان
چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں۔کسی چیز کو منحوس قرار دینا مسلمانوں کا شیوہ نہیں یہ تو
غیر مسلموں کا طریقہ ہے۔ اچھا شگون لینے سے اللہ پاک کے رحم و کرم سے اچھائی اور
بھلائی کی امید ہوتی ہے جبکہ بدشگونی سے ناامیدی پیدا ہوتی ہے۔