عورتوں میں پائی جانے والی
5 بد شگونیاں از بنت شفیق احمد
(جامعۃ المدینہ للبنات تاجپورہ لاہور)
عورتوں
میں پائی جانے والی 5 بد شگونیاں
بد شگونی لینا عالمی بیماری ہے، مختلف ممالک میں رہنے والے مختلف لوگ مختلف
چیزوں سے ایسی ایسی بد شگونیاں لیتے ہیں کہ انسان سن کر حیران رہ جاتا ہے۔
حدیث مبارکہ میں ہے کہ” لَیسَ مِنَّا مَن تَطَیَّرَ وَلَا
تُطُیِّرَ لَہ “ یعنی جس نے بد شگونی لی اور جس کیلیے بد شگونی لی گئی وہ
ہم میں سے نہیں ۔
شگون:شگون کا معنی ہے ” فال لینا “ یعنی کسی چیز، شخص، عمل، آواز، وقت کو اپنے حق
میں اچھا یا برا سمجھنا۔
شگون کی اقسام :اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہی: (1)برا شگون لینا۔(2)اچھا شگون لینا۔
علامہ قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ اپنی تفسیر قرطبی
میں نقل کرتے ہیں اچھا شگون یہ ہے کہ جس
کام کا ارادہ کیا ہو اس کے بارے میں کوئی کلام سن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وقت ہے جب
کلام اچھا ہو، اگر برا ہو تو بدشگونی ہے۔( بدشگونی، ص 10)
حکم :امام محمد آفندی رومی برکلی رحمۃُ اللہِ علیہ الطریقۃُ المحمدیۃ
میں لکھتے ہیں : بد شگونی لینا حرام اور نیک فال یا اچھا شگون لینا مستحب
ہے۔مفتی احمد یار خان رحمۃُ
اللہِ علیہلکھتے ہیں :
اسلام میں نیک فال لینا جائز ہے اور بدفالی لینا حرام ہے۔( بد شگونی ،ص 12)
عورتوں
میں پائی جانے والی 5 بد شگونیاں
1. ماہِ صفر کو منحوس جاننا:نحوست کے وہمی تصورات کے شکار لوگ
ماہِ صفر کو مصیبتوں کے اترنے کا مہینہ سمجھتے ہیں خصوصاً اسکی ابتدائی 13 تاریخیں
جن کو ” تیرہ تیزی “ کہا جاتا ہے کو بہت
منحوس تصور کیا جاتا ہے۔حدیثِ پاک میں ہے: لَا
صَفَرَیعنی صفر کچھ
نہیں۔( بدشگونی، ص55)
2. شوال میں شادی نہ کرنا:شریعت نے کسی موسم یا مہینے میں نکاح
کرنے سے منع نہیں کیا لیکن کچھ نادان لوگ مخصوص دنوں اور مہینوں میں شادی کرنےکو
منحوس سمجھتے ہیں، ان کو یہ وہم ہوتا ہے کہ ان دنوں جو شادیاں ہوتی ہیں ان سے میاں
بیوی کے تعلقات اچھے نہیں ہوتے اور ان میں وہ الفت اور محبت نہیں ہوتی جو ہونی
چاہئے ،کچھ علاقوں میں شوال کو بھی انہی مہینوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔
اس بات کے رد پر دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا نے فرمایا: پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھ سے نکاح بھی شوال میں کیا اور زفاف بھی، تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی کون سی بیوی مجھ سے زیادہ محبوب تھی۔مراۃُ المناجیح میں
ہے:مقصد یہ ہے کہ میرا نکاح بھی شوال میں ہوا اور رخصتی بھی اور میں تمام ازواج
میں رسولُ اللہ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کو زیادہ
محبوب تھی، اگر یہ نکاح اور رخصتی مبارک نہ ہوتی تو میں اتنی محبوب کیوں ہوتی۔
علمائے کرام فرماتے ہیں:کہ شوال میں شادی مستحب ہے۔( بد شگونی، ص 61،62)
3. لڑکیوں کی پیدائش:بیٹاہو یا بیٹی، انسان کو اللہ تعالیٰ کا
شکر ادا کرنا چاہیے بیٹا اللہ کی نعمت اور بیٹی اللہ کی رحمت ہے مگر بعض نادان لوگ
تلے اوپر بیٹیاں ہونے کی صورت میں ان کی امی کو طرح طرح کے طعنے، طلاق کی دھمکی دیتے
ہیں بلکہ بسا اوقات اس دھمکی کوعملی تعبیر بھی دے دی جاتی ہے اور اس پر یہ بھی ظلم
کہ بیٹیوں کو ہی منحوس قرار دے دیا جاتا ہے۔ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ سے سوال ہوا:کیا
فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کےتیسری لڑکی ہوئی، اس سے
نہایت پریشان ہے، اکثر لوگ کہتے ہیں کہ تیسری لڑکی اچھی نہیں ہوتی تیسرا لڑکا اچھا
اور نصیب والا ہوتا ہے زید نے ایک صاحب سے دریافت کیا انہوں نے فرمایا کہ یہ سب
باتیں عورتوں کی بنائی ہوئی ہیں اگر تم کو وہم ہو تو صدقات کردو، اور 1 گائےیا 7
بکریاں قربانی کردواور توشہ شہنشاہ بغداد کردو اللہ بتصدق سرکار غوثیت ہر بلا سے
محفوظ رکھے گا۔
اعلیٰ حضرت نے
جواب دیا:یہ محض باطل اور زنانےاوہام اورخیالات شیطانیہ ہیں ان کی پیروی حرام ہے۔تصدق
اور توشہ سرکار ابد قرار بہت اچھی بات ہے مگراس نیت سے کہ اس کی نحوست دفع ہو جائے
جا ئز نہیں کہ اس میں اس کی نحوست مان لینا ہوا اور یہ شیطان کا ڈالا ہوا وہم تسلیم کر لینا
ہوا۔( بد شگونی،ص72)
حدیثِ پاک میں ہے
:بیٹیوں کو برا مت کہو، میں بھی بیٹیوں والا ہوں، بےشک بیٹیاں تو محبت کرنے والی،
غمگسار اور بہت زیادہ مہربان ہوتی ہیں۔ (بد شگونی، ص74)
4. کالی بلی اور بلی کا رونا:لوگوں کا رات کے وقت بلی کے رونے
یا کتے کے رونے کواور کالی بلی کے راستے کو کاٹ جانے کو منحوس سمجھنا۔(بدشگونی، ص 16)
5. گرہن سے جڑےتوہمات:گرہن کے وقت حاملہ عورت کو کمرے کے اندر
رہنےاور سبزی وغیرہ نہ کاٹنے کی ہدایت کرنا کہ بچہ کسی پیدائشی نقص کے بغیر پیدا
ہو۔یونہی گرہن کے وقت حاملہ عورت کو سلا ئی سے منع کرنا کہ اس سے بچے کے جسم پر
غلط اثر پڑتا ہے۔
مغربی ملک میں رہنے والی دنیاوی تعلیم یافتہ خاتون سورج
گرہن سے چند زور پہلے سخت پریشان تھی کیونکہ ان کے ہاں پہلے بچہ کی ولادت ہونے
والی تھی اور اس سے محض چند روز قبل بچے پر سورج گرہن کے ممکنہ اثرات کا خوف اس
تشویش میں مبتلا کئے ہوئے تھا کہ اس نے اپنے ڈاکٹر کو محض یہ پوچھنے کے لیے فون کیا
کہ آیا بچے کو سورج گرہن کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنا اس کی ولادت سے پہلے ممکن
ہے؟ ڈاکٹر نے اسے دلاسا دیتے ہوئے سمجھایا کہ اسے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اور
گرہن کے اثرات کی حقیقت توہمات سے زیادہ نہیں ہے۔(بد شگونی ص، 79)