اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا٘ۙ(۱۴۲) ترجمۂ کنز العرفان :"بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں اللہ کو فریب دینا چاہتے ہیں اور وہی انہیں غافل کرکے مارے گا اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توبڑے سست ہوکر لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور اللہ کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں ۔"(سورۃ النساء،آیت 122)

صراط الجنان جلد 2 صفحہ 335 میں اس آیت کے تحت لکھا ہے کہ نماز میں سستی کرنا منافقوں کی علامت ہے ، نماز نہ پڑھنایا صرف لوگوں کے سامنے پڑھنا جبکہ تنہائی میں نہ پڑھنا یالوگوں کے سامنے خشوع و خضوع سے اور تنہائی میں جلدی جلدی پڑھنایا نماز میں ادھر ادھر خیال لے جانا، دلجمعی کیلئے کوشش نہ کرنا وغیرہ سب سستی کی علامتیں ہیں۔

جہاں نماز میں سستی کرنا اُخروی نقصان کا موجب ہے وہیں منفعتِ دنیا کے قطع کا بھی سبب ہے، البتہ اختصار کے پیشِ نظر یہاں صرف 5 دنیاوی نقصانات تحریر کیے جاتے ہیں۔

(1 )حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‏ ، بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ تَرْكُ الصَّلاَةِ ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ بندے اور کفر کے درمیان فرق نماز چھوڑنا ہے۔"(رواہ مسلم)

حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی مراة المناجیح، جلد 1 ،صفحہ 322 میں اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں" کہ بندۂِ مومن اور کافر کے درمیان نماز کی دیوار حائل ہے، جو اس تک کفر کو نہیں پہنچنے دیتی، جب یہ آڑ ہٹ گئی تو کفر کا اس تک پہنچنا آسان ہوگیا ، ممکن ہے کہ آئندہ یہ شخص کفر بھی کر بیٹھے، یاد رہے! کہ بعض آئمہ کرام ترکِ نماز کو کفر بھی قرار دیتے ہیں، بعض کے نزدیک بے نمازی لائقِ قتل ہے اگر چہ کافر نہیں ہوتا ، ہمارے امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کے نزدیک " بے نمازی کو مار پیٹ اور قید کیا جائے، جب تک وہ نمازی نہ بن جائے، ہمارے ہاں اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بے نمازی قریبِ کفر ہے یا اس کے کفر پر مرنے کا اندیشہ ہے یا ترکِ نماز سے مراد نماز کا انکار یعنی نماز کا منکر کافر ہے،

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ کی مذکورہ بالا وضاحت سے معلوم ہوا کہ ترکِ نماز دنیا میں بھی بڑے وبال کا باعث ہے حتیٰ کہ بعض علماء کے نزدیک اسے قتل کر دیا جائے ۔

( 2 )نماز کی پابندی جہاں اخروی بے شمار خزینے کا سبب ہے وہیں جسمانی اور طبی طور پر بھی بے حد فائدہ مند ہے اور نماز کو چھوڑنے والا بد نصیب ان تمام فوائد سے بھی محروم رہتا ہے، چنانچہ جدید تحقیق کہ مطابق قیام میں نمازی جس حالت میں ہوتا ہے اگر روزانہ پینتالیس منٹ کھڑا رہے تو دماغ اور اعصاب میں زبردست قوت اور طاقت پیدا ہوتی ہے، قوت فیصلہ اور قوت مدافعت میں زیادتی ہوتی ہے۔ (سنتِ مصطفیٰ و جدید سائنس، صفحہ 23)

( 3) نمازی جب سجدہ کرتا ہے تو اس کے دماغ کی شریانیوں کی طرف خون زیادہ ہو جاتا ہے، جسم کی کسی بھی پوزیشن میں خون دماغ کی طرف زیادہ نہیں جاتا، صرف سجدے کی حالت میں دماغی اعصاب آنکھوں اور سر کے دیگر حصوں کی طرف متوازن ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے دماغ اور نگاہ بہت تیز ہوجاتے ہیں۔ (سنتِ مصطفیٰ و جدید سائنس، صفحہ 24)

(4 )ہر مسلمان کو چاہیے کہ صرف اللہ کی رضا کے لئے نماز پڑھے، اس کے دنیاوی امور خود ہی درست ہوجائیں گے، ورنہ دونوں جہاں کی رسوائی و ذلت اس کا مقدر ہوجائے گی، حدیث قدسی میں ہے "کہ اللہ پاک فرماتا ہے جب میں بندے کے دل میں اپنی عبادت کا شوق دیکھتا ہوں تو اس کے امورِ دنیا کو اپنے ذمّہ کرم پر لے لیتا ہوں ۔"(مجموعہ ارسال، امام غزالی، منہاج العارفین، ص217)اور نماز چھوڑ کر معاصی کا ارتکاب کرنا وبالِ کبیر ہے اور علماء فرماتے ہیں کہ معاصی کا ارتکاب کرنا بھی حافظہ کمزور کرنے کے اسباب میں سے ہے۔ (حافظہ کیسے مضبوط ہو، صفحہ 169)

( 5 )میرے شیخ طریقت امیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتھم العالیہ کی عظیم الشان تصنیف فیضان نماز، صفحہ 426 پر ایک حدیث نقل فرماتے ہیں جس میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" جو سستی کی وجہ سے نماز چھوڑے گا، اللہ پاک اسے 15 سزائیں دے گا، پانچ دنیا میں، تین موت کے وقت، تین قبر میں اور تین قبر سے نکلتے وقت ۔

دنیا میں ملنے والی 5 سزائیں

1۔ اس کی عمر سے برکت ختم کی جائے گی۔

2۔ اس کے چہرے سے نیک بندوں کی نشانی مٹادی جائے گی۔

اللہ پاک اسے کسی عمل پر ثواب نہیں دے گا ۔

4۔اس کی کوئی دعا آسمان تک نہ پہنچے گی۔

5۔۔ نیک لوگوں کی دعا میں اس کا کوئی حصہ نہ ہوگا۔

حکایت: ایک پاکستانی ڈاکٹر ماجد فزیو تھراپی میں اعلیٰ ڈگری کے لئے یورپ گئے، وہاں ان کو بالکل نماز کی طرح ورزش کرائی گئی تو حیران رہ گئے کہ ہم نے تو اس کو دینی فریضہ سمجھا لیکن اس سے تو بڑے بڑے امراض ختم ہوجاتے ہیں جیسا کہ دماغی بیماری،نفسیاتی امراض، جوڑوں کے امراض، معدہ اور السر کی شکایت، شوگر ، آنکھوں اور گلے کی بیماری سے انسان محفوظ رہتا ہے ۔

(سنتِ مصطفیٰ و جدید سائنس، صفحہ 23)