Under the supervision of ‘department of shrouding and burial (Islamic sisters)’, an online ‘shrouding and burial Tarbiyyati test’ for Islamic sisters was conducted in September 2021. 8 Islamic sisters from London Region passed the test.

The successful candidates (Islamic sisters) made the intention that they would give Ghusl to the deceased [Islamic sister] free of cost for the pleasure of Allah Almighty.


In the weekly Madani Muzakarh, Ameer Ahl-e-Sunnat دَامَـتْ بَـرَكَـاتُـهُـمُ الْـعَـالِـيَـهْ encourages people to read a Madani booklet assigned to them and also blesses the readers and listeners with Dua’s. Kaakardagi (performance) of the fortunate people reading and listening to the booklet is also presented in the court of Ameer Ahl-e-Sunnat دَامَـتْ بَـرَكَـاتُـهُـمُ الْـعَـالِـيَـهْ.

Ameer Ahl-e-Sunnat دَامَـتْ بَـرَكَـاتُـهُـمُ الْـعَـالِـيَـهْ motivated people to read or listen to the booklet, “Ala Hadrat and the Ameer of Ahl-e-Sunnat”.

In this connection, approximately, 13610 Islamic sisters from UK Region had the privilege of reading and listening to the booklet, “Ala Hadrat and the Ameer of Ahl-e-Sunnat”.


Under the supervision of ‘Department of Short Courses (Islamic sisters)’, Kaarkardagi about the religious activities carried out in September 2021 in UK Region is as follows:

Number of courses conducted this month: 38

Number of classes conducted through the local Madarsat: 38

Number of Islamic sisters who attended the courses: 956

Number of Islamic sisters who attended the courses for the first time: 37

Number of Islamic sisters who made the intention of attending the weekly Sunnah-inspiring Ijtima’: 305

Number of Islamic sisters who made the intention of studying in Madrasah-tul-Madinah: 29


Under the supervision of Dawat-e-Islami, a Madani Mashwarah of UK Region Nigran Islamic sister and Kabinah Mashawarat Islamic sisters was conducted on 12th October 2021. 12 Islamic sisters had the privilege of attending the spiritual Mashwarah.

UK Region Nigran Islamic sister followed up the Kaarkardagi of the attendees (Islamic sisters), did their Tarbiyyah and discussed about the problems of the books published by Maktaba-tul-Madinah. Moreover, she discussed on the preparations of Du’a and Bayan in Arabic language for those Islamic sisters who belong to Arabic language.

On the other hand, a Madani Mashwarah of UK Region Nigran Islamic sister and all Zimmadar Islamic sisters from Scotland was conducted in previous days. 20 Islamic sisters had the privilege of attending the spiritual Mashwarah.

In Madani Mashwarah, UK Region Nigran Islamic sister motivated the attendees [Islamic sisters] to try to improve the religious activities after lockdown and gave the Ahdaaf [targets] for telethon. 


Under the supervision of Dawat-e-Islami, a Madani Mashwarah was conducted in East Midlands Kabinah, Birmingham Region. Division Nigran Islamic sister had the privilege of attending the spiritual Mashwarah.

Kabinah Nigran Islamic sister followed up the Kaarkardagi of the attendees (Islamic sisters), did their Tarbiyyah and provided them the points regarding the religious activities. 


Under the supervision of Dawat-e-Islami, a Madani Mashwarah was conducted in London Region (UK) in previous days. Kabinah Nigran Islamic sister had the privilege of attending the spiritual Mashwarah.

London Region Nigran Islamic sister followed up the Kaarkardagi of the attendees (Islamic sisters), did their Tarbiyyah and motivated them to resolve the weaknesses in the religious activities and to collect donation as much as possible.


حدیث مبارک میں ہے: اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔(بخاری شریف،حدیث:71)دین کی سمجھ میں بنیاد عقائدِ اسلام کی ہےجس پراعمال کوشرفِ قبولیت والےاعمال کی عمارت قائم ہوتی ہے۔ بنیاد میں خرابی ہو تو عمارت چاہے کتنی ہی حسین وجمیل کیوں نہ ہو آخر کار زمین بوس ہو جاتی ہے۔ تعمیر اپنے معمار کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہے، یہی صورت حال انسان خصوصاً مسلمان کے ساتھ بھی ہے کہ اس کی تعمیر کس کے زیر سایہ ہوئی،اس کی بنیاد یعنی عقائد کس قدر مضبوط اور درست ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ تعمیر اپنے معمار، اولاد والدین کی تربیت اور شاگرد اپنےاستاد کی قابلیت کا آئینہ و نمونہ ہوتے ہیں، اس تمہید کا مقصد ایک ایسی شخصیت کاتعارف ہے جواپنے والدین کےلیے آنکھوں کی ٹھنڈک اور اپنے معماروں یعنی اساتذہ کے لیے قابل فخر نمونہ ہے۔ میری مراد شمس العلماء حضرت مولانامفتی ابو المعالی شمس الدین احمد جعفری جونپوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ہیں۔

شمس العلماء موصوف نے ایک مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم اپنے جد امجد اور نانا جان سے حاصل کی۔ ذہانت وفطانت من جانب اللہ ودیعت ہوئی مزید برآں مذکورہ بزرگوں کی شفقتوں اور محبتوں نے آپ کو گونا گوں صفات کا حامل بنا دیا، حصول علم کی پیاس اور شوق نے آپ کو متعدد بزرگوں کی بارگاہ تک پہنچایا جن میں صدر الافاضل، فخر الاماثل حضرت علامہ مولاناسیدمحمد نعیم الدین مراد آبادی اور صدر الشریعہ، بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہمانمایاں مقام رکھتے ہیں۔بالخصوص حضرت صدر الشریعہ کے بارے میں آپ فرماتے ہیں: میرے مخدوم حضور صدر الشریعہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کو جملہ علوم وفنون متداولہ میں کافی درک تھا،بالخصوص معقولات پڑھاتے وقت معقولات کو پانی پانی کر دیتے تھے، یہ الگ بات ہے کہ قدرت کی فیاضیوں نے انہیں علم فقہ کا امین وارث بنا دیا، لوگ دار الافتاء میں فتوے کی مشق کرتے کرتے زندگی تمام کر دیتے ہیں تاہم اس منصب کو نہیں پہنچ پاتےہیں جو صدر الشریعہ کو قدرت کا عطیہ تھا۔

حضور شمس العلماء بھی اپنے اساتذہ سے ایسے مستفیض ہوئے کہ معقولات ومنقولات میں ماہر اور فقہ پر گہری نظر رکھتے تھے،ہر فن میں سیر حاصل گفتگو فرماتے اور معلومات کا دریا بہاتے،کلام کے تجزیے پر عبور رکھتے اور جب تک اس کے دلائل ومقدمات کو پرکھ نہ لیتے قبول نہ فرماتے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ 20 سال کی عمر میں دار العلوم منظر اسلام بریلی شریف سے فارغ التحصیل ہوئے۔ دس سال کی عمر میں امام اہل سنت، مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے شرف بیعت حاصل کیا، حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان اور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفٰے رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہما نے - خرقہ خلافت عطا فرمایا۔

محترم قارئین!اپنے عقائد ونظریات کی حفاظت اور افکار کی پختگی کے لیے علمائے حق اور اصحابِ نظر شخصیات کے سائے کی ضرورت ہوتی ہے، جن کی صحبت ونظر بندے کو کامل وپختہ بنا دیتی ہے،حضور شمس العلماء ایسوں ہی کی صحبت سے فیض یاب ہو کر ایک چمکتا ستارہ بنے آپ کے مربیان میں آپ کے داد وناناجان کے علاوہ آپ کے اساتذہ پیر طریقت نمایاں مقام رکھتے ہیں، مذکورہ بالا ہستیاں کسی تعارف کی محتاج نہیں اور حضور شمس العلماء کی ذات میں ان ہستیوں کی جھلک واضح نظر آتی ہے۔خصوصاً عقائد کے معاملے میں جہاں کئی ٹھوکر کھا گئے وہاں بھی آپ نے اسلاف کے دامن کو مضبوطی سےتھامےرکھااوراپنی سیرت وکردارکویادِگار اسلاف بنادیا، ۔

صحابہ کرام کے متعلق نظریہ:

صحابہ کرام کے متعلق آپ کی تحریر کردہ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:٭ انبیاء ومرسلین کے بعد تمام مخلوقاتِ الٰہی جن وانس وملک سے افضل صدیق اکبر ہیں۔ (قانونِ شریعت، ص۷۱)٭کسی صحابی کے ساتھ بد عقیدگی گمراہی وبدمذہبی ہے، حضرت امیر معاویہ،حضرت عمرو بن عاص،حضرت وحشیرَضِیَ اللہُ عَنْہم وغیرہ کسی صحابی کی شان میں بے ادبی تبراہے اور اس کا قائل رافضی ہے۔ (قانونِ شریعت، ص۷۱)٭حضرات شیخین کی توہین بلکہ ان کی خلافت سے انکار ہی فقہاء کے نزدیک کفر ہے۔(قانونِ شریعت، ص۷۲)حضور شمس العلماء رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مزیدتحریر فرماتےہیں:جو صحابہ واہل بیت سےمحبت نہ رکھے وہ گمراہ وبد مذہب ہے۔ (قانون شریعت: ص۷۳) کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبہ کا ہو کسی صحابی کے رتبہ کو نہیں پہنچتا، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت امیر معاویہ کی جنگ خطائے اجتہادی ہے جو گناہ نہیں اس لیے حضرت امیر معاویہ کو ظالم، باغی سرکش یا کوئی برا کلمہ کہنا حرام و ناجائز بلکہ تبرا ورفض ہے۔(قانون شریعت: ص۷۲)

امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ اور یزید کے متعلق نظریہ:

یونہی کچھ لوگ نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول حضرت سیدنا امام حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی شان میں گستاخی کرتے اور معاذ اللہ انہیں باغی کہتے نظر آتے ہیں، اگر یہ لوگ اپنے آپ کو اہل سنت کہلواتے ہیں تو سن لیں کہ یہ اہل سنت کا نظریہ نہیں بلکہ جہلاء کا نظریہ ہے اہل سنت کے نظریے کو بالکل واضح طور پر لکھتے ہوئے حضرت شمس العلماء فرماتے ہیں: جو امام حسین (رَضِیَ اللہُ عَنْہ ) کو باغی کہے یا یزید کو حق پر بتائےوہ مردود خارجی مستحق جہنم ہے۔ (قانون شریعت: ص۷۳)اس مضمون کی وساطت سے ہم یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ یزید کے بارے میں اسلاف کا کیا عقیدہ تھا تاکہ کسی گمراہ کی باتیں ہمیں گمراہ نہ کر سکتیں، حضرت علامہ موصوف یزید کے متعلق مسلمانوں کا عقیدہ واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’یزید کے ناحق ہونے میں کیا شبہ ہے البتہ یزید کو نہ کافر کہیں نہ مسلمان کہیں بلکہ سکوت کریں۔‘‘اس جزئیے سے یزید کو امیرالمؤمنین کہنے والے ذرا غور فرما لیں کہ علمائے اہل سنت کے نزدیک یزید کی کیا حیثیت ہے۔

عملی میدان میں یادگارِ اسلاف:

اعتقادیات کے ساتھ عملی میدان میں بھی آپ یادگارِ اسلاف تھے،تاریخ کےاوراق نے آپ کی سیرت کےجن واقعات کو محفوظ کررکھا ہے اس میں سے مختصر یہ چند پہلو پیش خدمت ہے:(1) آپ کا ذوق ِتلاوت قابل رشک تھا، ہفتے میں ایک قرآن پاک ختم فرماتے ۔(2)فقہی عبارات جلد و صفحہ کے ساتھ آپ کومستحضر رہتیں اور بوقتِ ضرورت نوکِ زبان پرآجاتیں۔(3)اندازِ تدریس ایسا دلنشین تھاکہ طلبہ کے دل و دماغ میں وہ چیزنقش ہوجاتی ۔(4)آپ کا زہد و تقویٰ بے مثال تھا ۔(5)اپنےجگرپاروں کی تربیت کاخصوصی اہتمام کررکھا تھا۔

دعا ہے اللہ پاک حضرت کے فیوض سے ہمیں بھی حصہ عطا فرمائے اور حضرت کے مرقد پر تاقیامت رحمت ونور کی برسات فرمائے۔ (آمین بجاہ النبی الکریم صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)

از:مولانا محمد امجد خان عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر ،دعوتِ اسلامی )


اللہ تعالیٰ  نے اپنی تخلیق”انسان“ کوشرفِ علم سے نوازا اوراسے وہ کچھ سکھایا جسے وہ نہ جانتا تھا۔نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو معلم بناکر مبعوث فرمایا،آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے” کتاب“ اور ”حکمت“ کی تعلیم دی جس کا ذکر سورۂ جمعہ آیت2 اور 3 میں موجود ہے ۔ تعلیماتِ نبوی ”کتاب“اور ”حکمت“پرمشتمل تھی اور یہ دونوں ہی وحی الٰہی کےذریعے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حاصل ہوئے لہٰذا یہ دونوں”غایت،مقصود اور منزل“ ہیں جب کہ دیگر علوم(لغت،فقہ واصولِ فقہ، بلاغت وغیرہ)ان دونوں تک پہنچنے کےوسائل اور ذرائع ہیں۔

علم وہ نعمت ہے جس میں اضافہ طلب کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نےنبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیا ہے اسی نعمت کا سوال نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنےربِِّ کریم سے کیا اور ہمیں بھی اس کا سوال کرنے کی تعلیم دی۔نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نمازِ فجر کے بعد یوں دعا فرماتے:

اے اللہ! میں تجھ سےعلمِ نافع،پاک رزق اورمقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔(مصنف ابن ابی شیبہ،7/39، حدیث:14)

اس دعائے نبوی میں دو پہلو قابلِ توجہ ہیں :

(1)اس طرح دعا مانگنے کی ہر مسلمان کوضرورت ہے،اگر وہ طالبِ علم ہے تو علمِ نافع مانگے،اگرطالبِ رزق ہے تو حلال رزق مانگےاور جو دن بھرنیک عمل کررہا ہے وہ بارگاہِ الہی میں قبولیتِ عمل کا سوال کرے ۔

(2)اس روایت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے علم کو ”نافع“سے موصوف کرکے سوال کیا اور غیر نافع علم سے پناہ مانگی ہےاس سے ہمیں معلوم ہوا کہ علم کی دو قسمیں ہیں:(1)علمِ نافع(2)علمِ غیر نافع۔

اِس تمہید ی گفتگو سے علم وحکمت اور علم نافع کی ضرورت واہمیت خوب واضح ہوگئی۔ہمارےاسلاف کوعلم و حکمت کا فہم ملا اور ان نفوس نے اس نعمتِ خداوندی کو کئی ذرائع سے نسلوں میں منتقل کرنے کا بھی انتظام فرمایا۔ ہرزمانے میں دنیا کودانائے علم وحکمت سے نوازا گیا، شمسُ العلماء ، حضرت علامہ مولانامفتی قاضی ابو المعالی شمس الدین احمد جعفری رضوی جونپوریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ذاتِ گرامی بھی انہی میں سے ایک ہے ۔

(2) جونپورداناعلما و حکما کی سرزمین:

۱۳۶۱ء میں فیروز شاہ تغلق نےایک شہر آباد کیا اور اِ س کا نام اپنےچچا زادبھائی جونا شاہ کےنام پر” جونپور“رکھااور شہرکو باوقاراوربا رونق بنانے کے لئےعلماء،دانشور اور صنعت کاروں کواس شہر میں بسادیا۔ دنیا نے ایک بار پھر وہ زمانہ دیکھا کہ جونپور نے بغداد و قرطبہ کی یادیں تازہ کردیں ،لوگ مصر،عراق،ایران وغیرہ سے جونپور کی طرف کھنچے چلے آئے۔کچھ عرصہ گزرنے کے بعد جونپور کو دار السرور،دارالعلم اور شیرازِ ہند کے بلند پایہ القاب سےشہرت ملنے لگی اوریہ شہرشائقین ِ علم و حکمت کی طلب پوری کرنےاورشوق کی تسکین کا عظیمُ الشان مرکزاوردانائے علم و حکمت کا مسکن بن گیا۔

اللہ تعالیٰ نے٢٨ ذی الحجہ ١٣٢٢ھ مطابق٥ مارچ ١٩٠٥ءکوشمسُ العلماء ، حضرت مولانا مفتی قاضی ابو المعالی شمسُ الدِّین احمد جعفری رضوی جونپوریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی صورت میں ایک اور دانائے علم وحکمت سے نواز کر کرم فرمایا۔

شمس ُ العلماء کا سفرِ علم: علم ،معلم و طالب علم اور ان دونوں کے مابین تعلیم دراصل ارکان اربعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علم،معلم اورمتعلم کاشرف ”معلوم“ سے ظاہر ہوتاہے اور ”معلوم “یہاں کتاب و سنّت ہیں جس کی تعلیم نےان تینوں(یعنی علم ،معلم اور طالب وعلم)کو شرف سے نوازا ہے ،ان ارکان کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حدیثِ پاک میں بھی عالم ،طالب علم،علم کے سامع اور محب بننے کاحکم دیا گیا ہےجب کہ بغضِ علم کو ہلاکت اور بربادی کاسبب قرار دیا گیا ہے۔ (معجم صغیر،حدیث:786) اگر طالبِ علم کوبلند پایہ اساتذہ میسرآجائیں تو یہ اُس کی کامیابی میں کلیدکردار ادا کرنےاورطالبِ علم کی حکمت و دانائی کو قابل ِ رشک بنانےمیں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔شمس ُالعلماء کو قابل ِ رشک مقام ومرتبہ آپ کے اساتذہ کی بدولت ملا تھا،قارئین کےسامنے ابتداء سےعروج تک پہنچنے کی مختصرداستان حاضر ہے،ملاحظہ کیجیے:

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت جدِّامجداورناناجان سے جونپور میں ہوئی ، اس کے بعدجامعہ نعیمیہ مرادآبادمیں صدرُالافاضل حضرت مولانا سیدمحمدنعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی خدمت میں حاضر ہوئےاور کسبِ فیض کیا پھردارُالعلوم معینیہ عثمانیہ میں داخلہ لیااورصدرُالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی اوردیگراساتذہ سے علوم وفنون حاصل کرنے میں مصروف رہے ۔١٣٥٢ھ میں جب صدرالشریعہ دارالعلوم مظہر اسلام بریلی شریف آگئے تو آپ بھی ان کے ہمراہ تھے ۔اسی سال آپ دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے فارغ التحصیل ہوئے۔

اساتذہ کی صحبت ،ان کے چشمہ ٔ علم سے سیرابی نہ صرف علم اور عقیدہ کی پختگی کا سبب بنی بلکہ اس کا براہِ راست اثر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے روز مرہ کے معمولات پر ہوا،پر چم اسلام کو بلند کرنے کے لئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا جذبہ بیدار کرنے میں اساتذہ کی تربیت کا اہم حصہ ہے۔اساتذہ کی شفقتوں اور عنایتوں نے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی با برکت ذات کو مسلمانوں کے لیے عظیم محسن اور زبردست خیر خواہ بنا دیا ۔

شمسُ العلماء میدان ِ عمل میں: شمسُ العلماء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جب میدان ِ عمل میں اُترےتو آپ کے طرز عمل سے علمِ نافع کی کرنیں پھوٹنے لگیں۔ آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنےتدریس کا آغازدار العلوم منظرِ اسلام بریلی شریف سے کیا۔جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں بھی تدریس فرمائی۔مدرسہ منظرحق ٹانڈہ ،مدرسہ حنفی جونپور ہ اورجامعہ رضویہ حمیدیہ بنارس میں آپ صدرُالْمُدَرِّسین رہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عملی زندگی کےچند واقعات ملاحظہ کیجیے:

میدان فقہ کے شہسوار:آپ کےفقہ وحدیث کی عبارات کا استحضارورطۂ حیرت میں ڈال دیتا،کوئی زبانی مسئلہ پوچھتا تو عربی عبارات پڑھ کرکے حل عطافرماتے، نہ صرف کتاب کی نشان دہی فرماتے بلکہ جلد و صفحہ متعین فرمادیتےاگر کتاب سامنے آتی تو جھٹ پٹ مقرر ہ مقام بھی نکال دیتے ۔عمر کے آخری حصے میں شدید علالت کے سبب کئی چیزوں میں دقت کا سامنا ہوتا مگرجب بھی کوئی دینی مسئلہ پوچھا جاتا تو ذرہ برابر غلطی کے بغیرحل عطافرمادیتے ۔

اللہ تعالیٰ نے شمس العلما کو تفہیم کی غیرمعمولی صلاحیت سےنوازا تھا، منقولات کی طرح دیگر علوم کے بھی شہ سوار تھے ، آپ کی سیرت کےاس گوشے سے چند واقعات پیش کرتے ہیں :

ایک مرتبہ حضرت علامہ قاضی شمس الدین جونپوری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ بریلی شریف سے جون پور بذریعہ ٹرین آرہے تھے،دوران ِ سفرچندلوگ انگریزی زبان میں معرَّف کی تعریف پر بحث ومباحثہ کررہے تھے مگرکوئی نتیجہ نہیں نکل پارہاتھا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ابتداء میں توملاحظہ فرماتے رہے پھر اُ ن کی دستگیری فرماتے ہوئے گفتگو میں شامل ہوکرانگریزی میں ہی ایسی جامع مانع تعریف کی کہ اُن کی مشکل دور ہوگئی اور وہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سےمتاثر ہوئے ۔ (حیات شمسی ،ص78)

قوسِ قزح کاتجرباتی مشاہدہ:

برسات کے بعدآسمان کے مشرقی اور مغربی کنارے پرقوس ِ قزح ظاہر ہوتی ہے،قوسِ قزح کے ان رنگوں کے لئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ایسے وقت میں پانی اوپر کی جانب پھینکنے کا فرماتے کہ جب سورج کی کرنیں بارش کے قطروں پر براہ راست پڑتی ہوں ،چنانچہ ایسا کرنے سےقوسِ قزح کے رنگ دِکھنے لگتے ۔ (حیات شمسی،ص76)

شمسُ العلما رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ جامعہ رضویہ بریلی شریف میں مسندِ تدریس پر رونق افروز تھے ، اس دوران چند طلبہ نے آپ کی خدمت عرض کی کہ مرقات و شرح تہذیب کے مسائل یاد نہیں رہتے جس کی وجہ سے اس فن میں خاطر خواہ فائدہ نہیں اُٹھا پاتے ،آپ اردو میں ایک رسالہ تحریر فرمادیجئے تاکہ اس فن سےفائدہ اٹھانا آسان ہو۔چنانچہ اس پیہم اصرارکی وجہ سے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےطلبہ کی خیرخواہی کےلئےاردومیں منطق کارسالہ”قواعدُالنظرفی مجالی الفکر“تحریرفرمایا۔(قواعدُ النظر، وجہ تصنیف)آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ علومِ عقلیہ کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ ان علوم کو ہم دین کےخادم کی حیثیت سے پڑھاتے ہیں نہ اصل بالذات کی حیثیت سے ۔(حیات شمسی، ص76) آپ کی تصنیف کردہ کتب میں قانون شریعت کوشہرت آفاق مقبولیت حاصل ہوئی۔

امراضِ جسمانی کے ماہر طبیب: علم و حکمت میں مہارت کے نظارے تو آپ کرہی چکے ہیں ،اب آپ کوشمس العلماء کی علم ِ طب میں رسوخ کی ایک جھلک دکھاتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں مخلوق ِخدا کی خیرخواہی کاحیرت انگیز جذبہ عطا فرمایا تھا حاجت مندوں کی خیر خواہی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عادات ِ مبارکہ میں شامل تھی، اسی جذبے کے تحت آپ اپنی طبیّ مہارت کوخلقِ خدا کے جسمانی امراض کے علاج میں وقف کرچکے تھے ،آپ کے تجویز کردہ نسخوں کااستعمال مریضوں کی شفا یابی کا بہترین سبب بن چکا تھا۔طبیہ کالج لکھنو کےسندیافتہ ٹانڈہ کے واحد شہرت یافتہ حکیم اشفاق احمد شمسُ العلمارَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی نبض شناسی کے بڑے مدّاح تھے،ان کا کہناتھا کہ ہمارےگھر میں استعمال ہونے والے تقریبا نسخے شمس العلماء ہی کے لکھے ہوئے ہیں۔ افسوس!میں اِس فن میں حضرت سے کچھ حاصل نہ کرسکا،صرف میزان الطّب کے کچھ اسباق پڑھے تھے۔(حیات شمسی، ص77) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکی یہ فیاضی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے علم و حکمت کےبے شمار خزانوں سے مالامال فرمایا تھا ۔

شمس العلماء کا ذوق تلاوت:قرآنِ مجید، فرقانِ حمید کی تلاوت کی بھی کیاخوب فضیلت ہے کہ اللہ پاک خُودتلاوت کرنے والوں کی مَدح سَرائی (یعنی تعریف) فرمارہا ہے، نیز احادیثِ کریمہ میں بھی ان کےکثیر فضائل وارِد ہوئے ہیں کہ قرآنِ کریم کی تلاوت کرنے والوں کو اللہ پاک کے خاص بندے فرمایا گیا،نیز جس شخص نے رِضائے الٰہی کے لئے قرآنِ کریم کی تلاوت کی ہوگی، بروزِ قیامت اسے نہ تو کسی قسم کی گھبراہٹ ہو گی اور نہ ہی ان سے حساب لیا جائے گا۔

شمسُ العلماءرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو دورِ طالبِ علمی ہی سے ذوقِ تلاوت قابل رشک تھا،اندازِ تلاوت میں قوانینِ تجوید کی بھرپور رعایت فرماتے۔

ہفتے میں ایک مرتبہ ختمِ قرآن:شمسُ العلماء عمر کی منزلیں جیسےجیسے طےکرتےگئے ویسے ہی ذوق تلاوت پروان چڑھتا گیا اوراکثر ہفتے میں ایک قرآن پاک ختم کرنااورجمعرات کو قرآن ختم کرکےفاتحہ کا اہتمام کرنا زندگی کے اہم ترین معمولات میں شامل ہوگیا۔ عمدگی سےقرآن پاک پڑھنے کا ذوق اپنے نسلوں میں منتقل کرنے کے لئے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے بچوں کو تجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھوانے کا انتظام فرمایا۔

آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اپنے چھوٹے صاحبزادے کو حفظ کروایا کرتے ،ایک مرتبہ صاحب زادے نے سبق یاد نہ ہونے کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا :کیسے یاد نہیں؟میں تمہیں یاد کرکے دِکھاتاہوں،چنانچہ ایک گھنٹے میں یاد کرکے سنادیا اورارشاد فرمایا: اگر مجھ پر دیگر ذمہ داریاں نہ ہوتیں تو ایک ماہ میں پورا قرآن ِ پاک حفظ کرلیتا ۔

علم و حکمت کا عملی اظہار:علم و حکمت کے موتی زبان سے بکھیرنے بھی اچھی بات ہے مگر کمال یہ ہے کہ علم و حکمت کی خوشبو عمل کے ذریعے بھی پھیلائی جائے ، شمس العلما کی سیرت سے علم و حکمت کا عملی اظہار ہوا کرتا، چنانچہ ایک مرتبہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے گھر میں طلبہ کے لئے کھاناتیار ہوا،کھانے میں گوشت تھا جو پکنے کے بعد تمام کا تمام مدرسے میں بھیج دیا گیا ،مدرسے میں صدقے کا گوشت آیا ہوا تھاجس سےایک طالبِ علم پیالہ بھر کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی غیرموجودگی میں گھر پر دے گیا ،گھر والوں نے بھی اُسے پکالیا، ،دسترخوان سجاتوگوشت والے سالن کا پیالہ رکھ دیا،جب آپ تشریف لائے تو گوشت کا سالن ملاحظہ فرماکرپوچھا:”یہ کہاں سے آیا۔“اس کی ساری تفصیل عرض کردی گئی جسے سننے کے بعد آپ کو جلال آگیا ، ارشاد فرمایا:مدرسے کا کھانا کس نے قبول کیا؟کیا یہ ”پکانے “کی اجرت میں نہیں آئے گا؟یہ تو صدقے کا ہےاور مدرسے کے طلبہ کے لیے ہے ؟آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اِ س واقعے کے ذریعے اپنے گھر والوں کو ایک مسئلہ بھی ذہن نشین کرادیا ۔مالِ وقف کے معاملے میں یہ احتیاط ہمارے لئےبھی راہِ عمل کو واضح کررہی ہے ۔

حکمت و دانائی کا تقاضا یہی ہے کہ جہاں بندہ دوسروں کو نفع پہنچائے وہیں خود بھی دنیا و آخرت میں کامیاب ہونے کی کوشش جاری رکھےشمسُ العلماء کی سیرت کا بنیادی سبق بھی یہی ہے۔ آج بھی غیرنافع علم کےجال میں پھنس جاتی ہے لہٰذاعلم و حکمت کے طالب کو اس جال سے خود کوبچانے کی شدید ضرورت رہتی ہےاس کےلئےضروری ہے کہ بندہ”امراضِ علم“(مثلاحسد،تکبر وغیرہ)سےخود کو آزاد کرے ،اپنامحاسبہ کرتا رہے بالخصوص نیت کی چھان بین بھی کرےتاکہ اپنے وقت کو برباد ہونے سے بچاسکے۔اس سلسلے میں امام ذہبی کا رسالہ”بیانُ زَغَلِ الْعِلْمِ وَّ الْطَلَب“ کا مطالعہ نہایت مفید ہے ۔کاش!آج کے طلبہ کے لئے کوئی اس طرز پررسالہ لکھے،یقینایہ موجودہ دور کے طلبہ کے ساتھ بہت بڑی خیر خواہی ہوگی ۔

شمسُ العلماء ، حضرت مولانامفتی قاضی ابو المعالی شمس الدین احمد جعفری رضوی جونپوری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے یکم محرم الحرام ١٤٠١ھ مطابق ٩نومبر١٩٨٠ء وصال فرمایا، محلہ میر مست جونپور (یوپی، ہند) میں آپ کا مزارِ پرانوارہے۔

از: مولاناناصر جمال عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر ،دعوتِ اسلامی )


30 اکتوبر 2021ء کو پنجاب یونیورسٹی اینڈ کالج منڈی بہاؤ الدین ملتان میں سیرت النبی کانفرنسکا اہتمام کیا گیا جس میں یونیورسٹی کے وائش چانسلزڈاکٹر رؤوف، پروفیسرز اور اسٹوڈنٹس نے شرکت کی۔

سیرت النبی کانفرنس میں دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن حاجی محمد اظہر عطاری نے خطاب فرمایا۔ خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ظاہری زندگی ہمارے لئے عملی نمونہ ہے، ہمیں اپنی زندگی آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے گزارنی چاہیئے۔ رکن شوریٰ نے شرکا کو دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہونے اور فیضان آن لائن اکیڈ می کے ذریعے کورسز میں داخلے لینےکا ذہن دیا۔

یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے دعوت اسلامی کو اعزازی شیلڈ بھی پیش کیا گیا۔


والدین کے لئے بیٹیوں کی تربیت سے متعلق بنیادی باتوں  پر مشتمل ایک نصیحت آموز رسالہ

بیٹی کی پَرورش

پیشکش: مرکزی مجلس شوریٰ، دعوتِ اسلامی

اِس رسالے کی چندخصوصیات:

٭دیدہ زیب ودِلکش سرورق (Title) وڈیزائننگ (Designing) ٭عصرحاضرکے تقاضوں کے پیشِ نظرجدید کمپوزنگ وفارمیشن ٭عبارت کے معانی ومفاہیم سمجھنے کیلئے ’’علاماتِ ترقیم‘‘(Punctuation Marks) کا اہتمام ٭اُردو، عربی اور فارسی عبارتوں کو مختلف رسم الخط (Fonts)میں لکھنے کا اہتمام ٭پڑھنے والوں کی دلچسپی برقرار رکھنے کیلئے عنوانات (Headings) کا قیام ٭بعض جگہ عربی عبارات مع ترجمہ کی شمولیت ٭آیات کے ترجمہ میں کنزالایمان کی شمولیت ٭حسب ضرورت مشکل اَلفاظ پر اِعراب اور بعض پیچیدہ اَلفاظ کے تلفظ بیان کرنے کا اہتمام ٭قرآنی آیات مع ترجمہ ودیگر تمام منقولہ عبارات کے اصل کتب سے تقابل(Tally) کا اہتمام ٭آیات، اَحادیث،توضیحی عبارات، فقہی جزئیات کےحوالوں (References) کا خاص اہتمام ٭ اغلاط کوکم سے کم کرنے کیلئے پورے رسالے کی کئی بار لفظ بہ لفظ پروف ریڈنگ۔

79صفحات پر مشتمل یہ رسالہ2013ءسے لیکر8مختلف ایڈیشنز میں87 ہزارکی تعداد میں پرنٹ ہو چکا ہے۔

اس رسالے کی PDF دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ بھی کی جاسکتی ہے۔

Download Now


دعوتِ اسلامی کے شعبہ کفن دفن کے زیرِ اہتمام 29اکتوبر2021ءبروزجمعہ کراچی میں کفن دفن کا عملی طریقہ  سکھانےکےحوالے سے ایک نشست کااہتمام کیاگیاجس میں جامعۃ المدینہ کے طلبۂ کرام اورکورسز کےشرکا نے شرکت کی۔

شعبہ کفن دفن کےذمہ دارعزیر عطاری نے میت کو غسل دینے کی فضیلت و اہمیت بتاتے ہوئے میت کو غسل دینے، کفن کاٹنے اور پہنانے کا طریقہ بتایا۔(رپورٹ: عزیر عطاری شعبہ کفن دفن ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

29 اکتوبر 2021ء کو دعوت اسلامی کے شعبہ میڈیا ڈیپارٹمنٹ  کے رکن محمد احمد بلال عطاری نے دیگر ذمہ داران کے ہمراہ سکھر زون میں میڈیا سے وابستہ عہدیداران سے ملاقات کی۔ محمد احمد بلال عطاری نے انہیں دعوت اسلامی کے دینی و فلاحی کاموں پر بریف کیا اور ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے کی ترغیب دلائی۔

عہدیداران میں چیئر مین بلدیہ شہزاد انور، وائس چیئرمین ندیم رحمانی، صدر پریس کلب الیکٹرونک میڈیا نعیم مغل، سابق صدر دنیا نیوزفیاض بلوچ، ARYنیوز ترجمان پریس کلب کاش امین اور آٹو یونین صدر اصغر علی چھٹہ شامل تھے۔