خوف اورخشیت کاایک ہی معنی ہےوہ ہےڈرنا،گھبراہٹ میں مبتلا ہونا۔جبکہ خشیتِ الٰہی کامطلب ہے کہ  اللہ کریم کی بے نیازی ،اس کی ناراضگی،اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبرا ہٹ میں مبتلا رہے ۔ ([1]) اللہ کےآخری نبی،محمدِعربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس مومن کی آنکھ سے اللہ کریم کے خوف سےآنسو بہہ جائےاگر چہ وہ مکھی کےسر کے برابر ہواور پھر وہ آنسواس کےرخسارپرپہنچ جائےتواللہ کریم اس پرجہنم حرام فرمادے گا۔([2])

یادرکھئے!خشیت الٰہی،تقوی و پرہیزگاری ایک لازوال نعمت ہے،جس انسان کو اس نعمت سے نواز دیا جاتاہےاس کاظاہرو باطن ہمہ وقت یادِالٰہی میں مگن رہتاہے،اس کےطرزعمل اورکردار میں تبدیلی آ جاتی ہے، خشیتِ الٰہی کی یہ مقدس چادر بندےکو دنیا کی زیب و زینت اور حیوانیت میں ملوث ہونے سے بچا لیتی ہےاور انسان کوحقیقی انسان بننےمیں مدد فراہم کرتی ہے۔

اگرہم صحابَۂ کرام کی سیرت طیبہ کامطالعہ کریں اور ان کےاحوالِ زندگی سےآشنائی حاصل کریں تو یہ بات ہم پر روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ اس مقدس جماعت کی زندگیاں،ان کےشب و روز ،خشیتِ الہی ،زہدو تقویٰ کے بے مثال نمونوں سے بھری پڑی ہیں ،بس فی زمانہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان کی زندگیوں کامطالعہ کریں اور ان کےنقوشِ قدم پرچل کر اُخروی سعادت سےسرفراز ہوجائیں ۔

ہدایت کےانہی روشن ستاروں میں سب سے پہلےاسلام قبول کرنے والےقریش کے خوش نصیب شخص جنہیں افضل البشربعد الانبیاء، مسلمانوں کے پہلےخلیفہ ،صدیق وعتیق اور یا ر غا ر ویا ر مزار جیسی فضیلتوں سےشہرت حاصل ہے،ویسے توحضرت سیدناصدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہکےجس وصف کو دیکھیں ، آپ بےمثل و بےمثال اور ہراعتبارسےاشرف و اعلی ہیں،عبادت ہویاتلاوت،امامت ہویاخِلافت، کرامت ہویا شرافت، صداقت ہو یا شجاعت۔ آپ اتنی با برکت اور برگزیدہ شخصیت ہیں کہ آپ کی مبارک زندگی کےجس پہلو پر بات کی جائے اور آپ کے فضائلِ جمیلہ اور خصائصِ حمیدہ پر جتنا لکھاجائے کم ہے اوروقت اس کااحاطہ نہ کرسکےگامگرآج اس تحریرکاموضوع ”صدّیقِ اکبراورخشیت ِ الٰہی“ ہے۔آپرضی اللہُ عنہ تقوی و پرہیزگاری اورخشیتِ الٰہی کے وصف میں بھی اپنی مثال آپ تھے ،آپ کے خوفِ خدا اور خشیت الٰہی کےبارے میں جاننے سے پہلےمختصر تعارف ملاحظہ کیجئے:چنانچہ

٭حضرت صدیقِ اکبر کا نام عبداللہ اور والد کا نام(ابوقحافہ) عثمان ہے۔ ([3]) ٭ آپ کی کنیت ابوبکر ہے اور آپ اپنے نام سے زیادہ کنیت سے مشہور ہیں، آپ کی یہ کنیت اتنی مشہور ہےکہ لوگ اسے آپ کا اصل نام سمجھتے ہیں ۔([4]) ٭آپ کے دو لقب زیادہ مشہور ہیں ”عتیق“ اور ”صدیق“ اور اسلام میں سب سے پہلے عتیق کے لقب سے آپ ہی مشہور ہوئے ۔([5]) ٭عامُ الفیل کے اَڑھائی سال بعداور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وِلادت کے دو سال اور چند ماہ بعد پیداہوئے۔([6]) ٭ آپ کی ولادت مکۃ المکرمہ میں ہوئی ۔ ٭آپ اپنی قوم میں مالدار، بامروت، حُسنِ اخلاق کےمالک اور نہایت ہی عزّت و شرف والے تھے۔([7]) ٭آپ وہ خوش نصیب ہیں کہ جو خود بھی صحابی،والدبھی صحابی، بیٹےبھی صحابی،پوتےبھی صحابی، نواسے بھی صحابی اور بیٹیوں کوبھی صحابیات ہونےکاشرف نصیب ہوا۔٭آپ وہ عظیم صحابی ہیں،جنہوں نے آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکی حیاتِ ظاہری میں صحابۂ کرام کو سترہ (17)نمازیں پڑھائیں، آپ کےعلاوہ کسی اور صحابی کو یہ سعادت نہیں ملی۔([8]) ٭ آپ 2 سال7 ماہ مسندِخِلافت پر رونق اَفروز رہ کر 22جمادَی الاُخریٰ 13ہجری کواس دنیا سےپردہ فرماکر ہمیشہ کے لئے اپنے آقا کےیارِ مزار بن گئے ۔

بیاں ہو کس زباں سے مرتَبہ صدیقِ اَکبر کا

ہے یارِ غار،محبوبِ خُدا صدیقِ اَکبر کا

اِلٰہی! رَحم فرما! خادمِ صدیقِ اَکبَر ہوں

تِری رَحمت کے صدقے واسِطہ صدیقِ اَکبر کا

(ذوقِ نعت ،ص76)

حضرتِ سیدناابوبکرصدیق رضی اللہُ عنہخشیتِ الٰہی اور تقوی و پرہیزگاری کاایسا عملی نمونے تھے کہ خودخالقِ کائنات نے اپنے پاکیزہ کلام میں ان کے خوفِ خُدا اور متقی ہونےکو ان الفاظ کےساتھ بیان فرمایا:وَ سَیُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ(۱۷)

تَرْجَمَۂ کنز العرفان:اور بہت جلداس سے دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہیزگار۔

امام علی بن محمدخازنرحمۃُ اللہِ علیہفرماتے ہیں :تما م مفسرین کے نزدیک اس آیت میں سب سے بڑے پرہیزگار سے مراد حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہُ عنہہیں ۔( [9])

نہایت متّقی و پارسا صدیقِ اَکبر ہیں

تَقِیْ ہیں بلکہ شاہِ اَتقیا صدیقِ اَکبر ہیں

1. صحابی رسول،حضرتِ سیدنا زَید بن ارقمرضی اللہُ عنہفرماتے ہیں کہ ایک بار ہم حضرتِ سیدناابوبکر صدّیقرضی اللہُ عنہکی بارگاہ میں بیٹھے تھے کہ پانی اورشہد لایا گیااورجیسے ہی آپ کےقریب کیا گیا، تو آپ نے زاروقطار رونا شروع کردیا اور روتے رہے،یہاں تک کہ تمام صحابَۂ کرام بھی رونے لگ گئے،صحابَۂ کرام روروکے چُپ ہوگئے ،لیکن آپ روتے رہے،صحابَۂ کرام آپ کو دیکھ کر پھر رونے لگ گئے۔ بالآخرحضرت ابوبکرصدّیقرضی اللہُ عنہنےاپنی آنکھیں صاف کیں توصحابَۂ کرام نے عرض کی: اے رَسُوْلَ اللہ کےخلیفہ! آپ کوکس چیز نے رُلایا؟فرمایا:ایک بارمیں اللہ کےمحبوب کی خدمت میں بیٹھا تھا ۔اچانک میں نے دیکھا کہ آپ اپنی ذات سے کوئی شےہٹا رہے ہیں، حالانکہ اُس وقت مجھے کوئی شے نظر نہیں آرہی تھی، میں نےعرض کی: یَارَسُوْلَ اللہ!آپ کس شے کو ہٹا رہے ہیں؟ فرمایا: دُنیا نے میرا ارادہ کیا تھا میں نے اُس سے کہاکہ دُور ہوجا۔ تو اُس نے مجھےکہا:آپ نے اپنےآپ کو تومجھ سے بچالیا،لیکن آپ کےبعد والے مجھ سے نہیں بچ پائیں گے۔([10])

2. حضرت مُعاذبن جبلرضی اللہُ عنہسےروایت ہےکہ حضرتِ سیدناابوبکرصدّیقرضی اللہُ عنہایک باغ میں داخل ہوئے، درخت کےسائے میں ایک چِڑیاکو بیٹھے ہوئے دیکھا،تو ایک درد بھری آہ کھینچ کر ارشادفرمایا: اےپرندے!تو کتناخوش نصیب ہے کہ ایک درخت سے کھاتاہے اور دوسرے کے نیچے بیٹھ جاتاہے،پھرتوبغیرحساب کتاب کےاپنی منزل پہ پہنچ جائےگا۔ اے کاش! ابوبکربھی تیری طرح ہوتا۔ ([11])

3. حضرتِ سیدنا ابُوعمران جَوْنِیرحمۃُ اللہِ علیہسےروایت ہےکہ حضرت سیدناابوبکرصدّیقرضی اللہُ عنہ نے ارشادفرمایا: کاش! میں ایک مومنِ صالح کے پہلو کا کوئی بال ہوتا۔([12])

4. حضرتِ سیدناحَسَن رحمۃُ اللہِ علیہ سے روایت ہےکہ حضرت سیدنا ابوبکرصدّیقرضی اللہُ عنہنے فرمایا:خدا کی قسم میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میں یہ درخت ہوتاجسے کھایااور کاٹاجاتا۔([13])

5. حضرتِ سیدناقتادہ رضی اللہُ عنہسےمروی ہےفرماتے ہیں کہ مجھےیہ خبرملی ہےکہ ایک بارحضرتِ سیدناابوبکر صدّیق رضی اللہُ عنہ نے یوں فرمایا:اے کاش! میں سبزہ ہوتا جسے جانور کھاجاتے۔([14])

6. حضرت ِسیدناابُودَرْدَاءرضی اللہُ عنہسےروایت ہےکہ آقاکریمصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمنےارشادفرمایا: جو زُہد وتقویٰ میں حضرت عیسیٰ کی مثل کسی کو دیکھنا چاہے تو وہ ابوبکر کو دیکھ لے۔ ([15])

7. حضرت سیدنامطرف بن عبداللہرحمۃُ اللہِ علیہسے روایت ہےکہ حضرت سیدناابوبکرصدّیقرضی اللہُ عنہ نےفرمایا: اگرآسمان سے کوئی باآواز بلند صدا دے کہ جنت میں صرف ایک آدمی داخل ہوگا تو مجھےامید ہےکہ ایسا میں ہی ہوں گا اور اگرآسمان سے یہ آواز آئے کہ دوزخ میں صرف ایک ہی شخص داخل ہوگا تو مجھے خوف ہےکہ کہیں وہ بھی میں ہی نہ ہوں۔یہ روایت نقل کرنے کےبعد مطرف بن عبداللہرحمۃُ اللہِ علیہفرماتے ہیں:یہی خشیت ِالٰہی اور رضائےالٰہی کی سب سے بڑی کیفیت ہے جو حضرت سیدنا صدّیقِ اکبررضی اللہُ عنہ کو حاصل تھی۔([16])

یقیناً منبعِ خوفِ خُدا صدیقِ اکبر ہیں

حقیقی عاشقِ خیرالوریٰ صدیقِ اکبر ہیں

22 جُمادَی الاُخْری آپ رضی اللہُ عنہ کا یوم ِعرس ہے،تمام مسلمان اپنے اپنے گھروں میں حضرت صدیق رضی اللہُ عنہ کی نیاز وفاتحہ کرکے برکتیں حاصل کیجئے ۔اے اللہ!حضرت صدّیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ کا صدقہ ہمیں بھی اپناحقیقی خوف نصیب فرما۔اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

از:مولانا عبدالجبار عطاری مدنی

اسکالر المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر ،دعوت اسلامی )

شعبہ ذمہ دار:رسائل دعوت اسلامی



[1] احیاء العلوممترجم ، 4 /451 ماخوذا

[2]ابن ماجہ ،4/ 467، حدیث: 4197

[3] صحیح ابن حبان، 9/6،حدیث: 6825

[4] سیرت حلبیہ ، 1/390

[5] ریاض النضرۃ ،1/77

[6] الاصابہ ، 4/145

[7] اسد الغابۃ ، 3/316، تاریخ الخلفاء، ص24

[8] سیرت سیدالانبیا ء، ص601ملخصا

[9] تفسیرخازن، واللیل، 4/384

[10] شعب الایمان ،7 /343، حدیث:10518

[11] کنز العمال، 6/237، حدیث:35696

[12] کتاب الزہد ، ص138،رقم: 560

[13] کتاب الزہد ، ص141، رقم: 581

[14] جمع الجوامع، 11/41، حدیث: 147

[15] ریاض النضرۃ، ، 1/ 82

[16] اللمع فی التصوف ، ص168