سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر آنکھوں کا نور اور دِلوں کا سرور ہے۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذکرِ خیر سے عُشّاق کے دل اطمینان پاتے اور لذّتِ عشق محسوس کرتے ہیں۔ہمارے اسلاف رحمہمُ اللہ السَّلام سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر کس طرح کیا کرتےتھے،چند واقعات ملاحظہ فرمائیں:

(1)حضرت سیّدُنا عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ جب نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر کرتے تو عشقِ رسول سے بےتاب ہو کر رونے لگتے اور فرماتے:وہ (نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) تو نکھرے نکھرے چہرے والے،مہکتی خوشبو والے اور حسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ مکرّم تھے،اوّلین و آخرین میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کوئی مثل نہیں۔([i])

(2)حضرت عبدُالرّحمٰن بن مہدی رحمۃ اللہ علیہ جب بھی حدیثِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھتے تو حاضرین کو خاموش رہنے کا حکم دیتے اور فرماتے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (تَرجَمۂ کنزُ العرفان:اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔)([ii]) (اب کس کی مجال تھی کہ وہ گفتگو کرتا)۔

مزید فرماتے تھے کہ حدیثِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے وقت اسی طرح خاموش رہنا واجب ہے جس طرح خود حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک زبان سے سنتے وقت خاموش رہنا واجب تھا۔([iii])

(3)حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے جب نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر کیا جاتا تو اُن کے چہرے کا رنگ بدل جاتا اور وہ ذِکْرِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم کے لئے خوب جھک جاتے۔ درسِ حدیث میں تعظیم کا عالَم یہ ہوتا کہ عمدہ لباس زیبِ تن فرما کر مسند پر نہایت عاجزی کے ساتھ تشریف فرما ہوتے اور درس

کے دوران کبھی پہلو نہ بدلتے۔([iv])

(4)رئیسُ المتکلمین مولانا نقی علی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے سورۂ اَلَمْ نَشْرَح کی تفسیر فرماتے ہوئے جب نامِ نامی اسمِ محمد لینا چاہا تو ادب کا یہ عالَم نظر آیا کہ سات بڑے صفحات پر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےالقابات ذکر کرنے کے بعد بھی جب نامِ نامی اسمِ محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لیا تو پھر بھی یہ فرمایا:

در بند آ مباش کہ مضمون نہ ماندہ است

صد سال می تواں سخن از زلفِ یار گفت

ترجمہ:اس خیال میں نہ رہنا کہ مضمون ختم ہوگیا، اگر میں چاہوں تو سو (100) سال تک صرف زُلفِ یار کی باتیں کرتا رہوں۔([v])

(5)اعلیٰ حضرت محدثِ بریلوی علیہ الرَّحمہ کا حدیثِ مبارَکہ بیان کرنے کا انداز یہ ہوتا کہ آپ علیہ الرَّحمہ کھڑے ہوکر درسِ حدیث دیا کرتے۔ بغیر وُضو اَحادیثِ کریمہ نہ چھوتے اور نہ پڑھایا کرتے۔ حدیث کی ترجمانی فرماتے ہوئے کوئی شخص درمیان میں اگر بات کاٹنے کی کوشش کرتا، تو ناراضی کے اظہار میں چہرۂ مبارَکہ سُرخ ہوجاتا۔ درسِ حدیث دیتے وقت آپ علیہ الرَّحمہ کی وارفتگی کا عالَم دیدنی ہوتا۔([vi])

اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں سچا پکّا عاشقِ رسول بنائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں



([i])فیضان فاروق اعظم، 1/342 ملخصاً

([ii])پ26،الحجرات:2

([iii])الشفامترجم، 2/ 92

([iv])الشفا، 2/ 41، 42، 45

([v])امام احمد رضا کا درس ادب، ص3ملخصاً

([vi])امام احمد رضا کا درس ادب، ص10، 11ملخصاً