جو شخص جس چیز سے محبت رکھتا ہے وہ اس کا ذکر بھی باکثرت کرتا ہے، اور اپنے محبوب سے متعلق ہر ہر چز کا ادب اور احترام بجالاتا ہے، یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ جس ہستی سے سب سے زیادہ محبت کی جاتی ہے وہ نبی باصاحب لولاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے اور ہمارے اسلاف کا نبی علیہ الصلوة والسلام سے محبت کا انداز اپنی مثال آپ ہے، نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے محبت کرنے کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ کثرت کے ساتھ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر جمیل کیا جائے، اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ذکر کے وقت غایت تعظیم و توقیر بجالائی جائے، اور آپ صلی علیہ علیہ وسلم کے نامِ نامی اسم گرامی کے وقت انتہائی عجز و انکسارکا اظہار کیا جائے۔

ابن اسحق نجیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر جمیل جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرتے تھے تو انتہائی عاجزی سے کرتے تھے ان کے رونکھٹے کھڑے ہو جاتے اور رونے لگتے تھے یہی حال اکثر تابعین رحمہم اللہ کا تھا ان میں سے کچھ تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و شوق کی بنا پر روتے اور کچھ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہیبت و عظمت کی وجہ سے۔(شفا شریف)

مصعب بن عبداللہ فرماتے ہیں میں نے امام جعفر بن محمد رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا کہ وہ انتہائی خوش مزاج اور ظریف الطبع تھے لیکن جب بھی ا ن کے سامنے نبی کریم صلی اللہ تعالی کا ذکر جمیل کیا جاتا تو ان کا چہرہ زرد ہوجاتا تھا اور میں نے ان کو کبھی بے وضو حدیث بیان کرتے نہیں دیکھا۔(شفا شریف)

اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا یہ حال تھا کہ جب ان کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو ان کا رنگ بدل جاتا اور بطورِ تعظیم خوب جھک جاتے۔(شفا شریف)

عبدالرحمن بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ جب نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر کرتے تھے تو ان کے چہرے کا رنگ دیکھا جاتا کہ وہ ایسا ہوگیا گویا اس سے خون نچوڑ لیا گیا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ہیبت جلال سے ان کا منہ اور زبان خشک ہوجاتی اور زہری رحمۃ اللہ علیہ بڑے نرم دل اور ملنسار تھے، جب بھی ان کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو وہ ایسے ہوجاتے گویا کہ نہ غم نہ ان کو دیکھا اور نہ انہوں نے غم کو دیکھا۔

(شفا شریف)

مطرف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب لوگ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے تو پہلے آپ کی لونڈی آتی اور لوگوں سے کہتی کہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے دریافت کیا کہ کیا تم حدیث کی سماعت کرنے آئے ہو کہ مسئلہ دریافت کرنے؟ پس اگر وہ کہتے مسئلہ دریافت کرنے آئے ہیں تو آپ فوراً ہی باہر تشریف لے آتے اور اگر وہ کہتے کہ حدیث کی سماعت کرنے آئے ہیں تو آپ غسل کرتے، خوشبو لگاتے اور عمدہ لباس پہنتے، عمامہ باندھتے پھراپنے سرپر چادر لپٹتے، تخت بچھایا جاتا پھر آپ باہر تشریف لاتے اس تخت پر جلوہ افروز ہوتے، اس حال میں کہ آپ پرانتہائی عجزو انکساری طاری ہوتا، جب تک اس حدیث سے فارغ نہ ہوتے خوشبو سلگائی جاتی رہتی، بعض ر اویوں نے کہا اس تخت پر امام مالک اسی وقت تشریف فرما ہوتے جب کہ آپ کو حدیث رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بیان کرنی ہوتی۔(شفا شریف)

حضرت عبداللہ بن مبارک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں امام مالک کے پاس تھااور آپ حدیث کا درس دے رہے تھے، دورانِ درس آپ کو سولہ مر تبہ بچھو نے ڈنک مارا، شدتِ الم سے آ پ کا رنگ متغیر ہوگیا اور چہرہ مبارک زرد پڑ گیا مگر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قطع نہ فرمایا جب آ پ مجلس سے فارغ ہوئے اور لوگ چلے گئے تو میں نے عرض کیا اے ابو عبداللہ آج میں نے ایک عجیب بات دیکھی، آپ نے فرمایا ہاں۔ میں نے حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی عظمت و جلال کی بنا پر صبرکیا۔(شفا شریف)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں