ذکر مصطفی تو آنکھوں کا نور دل کا سرور ہے، عاشقِ مصطفی تو
ہر پل ہی اپنے محبوب کی یاد میں محو رہتے ہیں، لیکن کچھ عشاق فنا
فی الرسول کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوتے ہیں جیسے کہ ہمار ے بزرگان دین
فائز ہوئے ہیں اور جب ان کے سامنے جانِ عالم صلی اللہ
تعالیٰ وسلم کا ذکر مبارک ہوتا ہے تو ا ن کی کیفیت ہی بدل جاتی ہے اور بے اختیار ان
کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں جو کہ ان حضرات کا محبت رسول کا منہ بولتا ثبوت
ہے ہمار ے اسلاف کی ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں چند ملاحظہ فرمائیں۔
صحابہ کرام کی حضور سے والہانہ محبت کا اندازہ اس بات سے
لگا لیجئے کہ جب وہ ذکر مصطفے سنتے تو ان کی آنکھوں سے سل اشک رواں ہوجاتاتھا
چنانچہ ۔حضرت اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ذکر رسول کرتے تو عشقِ رسول میں بے تاب ہو کر رونے لگتے تھے اور فرماتے ، خاتم
المرسلین رحمۃ اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تو لوگوں میں سب سے زیادہ رحم دل اور یتیم کے لیے والد کی طرح، بیوہ کے لیے
شفیق گھر والے کی طرح اور لوگوں میں دلی طور پر زیادہ بہادر تھے وہ تو نکھر ے چہرے
والے مہکتی خوشبو والے اور نسب کے اعتبار سے زیادہ مکرم تھے اولین و آخرین میں آپ
کی مثل کوئی نہیں۔(فیضانِ فاروق اعظم جلد اول ص 342)
ذکر رسول اور عالمِ مدینہ کا انداز:
حضرت مصعب بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا امام مالک کے عشقِ رسول کا عالم یہ تھا کہ جب ان کے
سامنے ذکر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہوتا تھا توان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا اور ذکر مصطفی کی تعظیم کے لیے خوب
جھک جاتے(عاشَقانِ رسول کی 130 حکایت ص 42)
ذکر رسول اور اندازِ قطبِ مدینہ:
قطبِ مدینہ مولانا ضیا الدین احمد مدنی علیہ
الر حمۃ فنا فی الرسول کے منصب پر فائز تھے، ذکررسول ہی
آپ کا شبانہ روز کا مشغلہ تھا اکثر زیارت کے لیے آنے والے سے پوچھتے آپ نعت شریف
پڑھتے ہیں اگر ہاں کہتا تو اس سے نعت شریف سنتے اور خوب محظوظ ہوتے۔بارہا جذبات
تاثر سے آنکھوں سے سیل اشک رواں ہوجاتا۔
(سیدی قطبِ مدینہ، ص11)
امیر اہلسنت مولانا الیاس قادری بھی یادگار اسلاف شخصیت ہیں
بزرگانِ دین کی طرح جب آپ بھی ذکر مصطفی سنتے ہیں تو بارہا دیکھا گیا ہے کہ آپ
فرطِ محبت میں رونے لگتے ہیں اور بارگاہِ رسالت میں شفاعت کے لیے استغاثہ پیش کرنے
لگتے ہیں۔
جان ہے عشقِ مصطفی روز فزو ں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزا ناز دوا اٹھائے کیوں
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں