حضور
صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی بہت سی علامات اور
آثار ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے امتحان کے لئے کسوٹی کی حیثیت رکھتے
ہیں۔ ان میں سے ایک علامت حضور صلی اللہ علیہ
وسلم
کا بکثرت ذکر کرنا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: “جو شخص کسی سے محبت رکھتا ہے، اس کا ذکر
بکثرت کرتا ہے"۔
(کنزالعمال، کتاب الاذکار، الباب الاول، الحدیث1825،ج1،ص217)
کثرت ذکر کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری
ہے کہ ذکر کرتے ہوئے ادب و احترام کا لازمی طور پر لحاظ رکھا جائے اور حضور سیدالانام
صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاک کمال تعظیم و تکریم
اور صلٰوۃ و سلام کے ساتھ لیا جائے اور نام پاک لیتے وقت خوف وخشیت، عجزوانکساری
اور خشوع و خضوع کا اظہار کیا جائے۔
ترجمہ کنزالایمان: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ
ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ (پ18،النور:63)
تفسیر
کبیر میں ہے: "نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم
کو اس طرح نہ پکارو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ یوں نہ کہو: یا محمد!یااباالقاسم! بلکہ عرض کرو: یا رسول اللہ!، یا
نبی اللہ!"(التفسیر الکبیر، ج8،ص425،پ18،النور:63)
صحابہ کرام علیہم
الرضوان، تابعین، تبع تابعین اور ہمارے دیگر اسلاف جن کی زندگیاں
ہمارے لیے مشعل راہ ہیں وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے کس قدر ادب
و احترام کا مظاہرہ کرتے تاریخ اسلامی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے چنانچہ
حضرت مصعب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب امام مالک رضی اللہ عنہ کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو ان کے
چہرے کا رنگ تبدیل ہو جاتا ان کی پشت جھک جاتی یہاں تک کہ یہ امر ان کے ساتھیوں پرگراں
گزرتا۔ ایک دن حاضرین نے امام مالک رضی اللہ عنہ سے
ان کی اس کیفیت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: جو کچھ میں نے دیکھا ہے، تم
دیکھتے تو مجھ پر اعتراض نہ کرتے۔ میں نے قاریوں کے سردار حضرت محمد بن منکدد کو دیکھا
کہ میں نے جب بھی ان سے کوئی حدیث پوچھی تو وہ رو دیتے یہاں تک کہ مجھے ان کے حال
پر رحم آتا تھا۔(الشفاء،الباب الثالث،ج2،ص73)
حضرت امام مالک رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
عبدالرحمن بن قاسم جب حضور صلی اللہ علیہ
وسلم
کا تذکرہ کرتے تو ان کی حالت یہ ہوتی جیسے ان کے چہرے کا سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو
یعنی ان کے چہرے کی رنگت زرد ہو جاتی تھی اور رعب و جلال نبوی سے ان کا منہ خشک ہو
جاتا اور زبان تالو سے چپک جاتی تھی۔(الشفاء مترجم:مولانا محمد اطہر نعیمی،ج2،ص90،91)
حاصل کلام یہ ہے کہ ہمارے اسلاف کی زندگیاں ہمیں اس
بات کا درس دیتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم
کا ذکر کرتے ہوئے ادب و احترام لازم ہے اور ذرا سی بے ادبی نار جہنم کا سبب بن سکتی
ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اسلاف
کے طرز عمل پر زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ
جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں