بندہ جس سے عشق و مَحَبَّت کا دعویٰ کرتا ہے تو کثرت کے ساتھ اس کا ذکر بھی کرتا ہے، کیونکہ عاشقِ صادق کو اپنے محبوب کے ذکر سے مٹھاس ملتی ہے۔ چونکہ ہمارے عشق و مَحَبَّت کا مرکز  اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ مبارکہ ہے اور بلاشبہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکرِ مبارک سرمایۂ ایمان اور تسکینِ دل و جاں ہے اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم کثرت سے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر کریں۔

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور اُن کے بعد ہمارے زمانے تک کے اَسلافِ کرام رحمہم اللہ السَّلام کے ذکرِ رسول کرنے کا انداز بہت ہی منفرد اور نِرالہ ہوا کرتا تھا آئیے ہم بھی اپنے بزرگانِ دین رحمۃ اللہ علیہم اَجْمعین کے اندازِ ذکرِ رسول کے چند واقعات ملاحَظہ کرتے ہیں۔

(1)حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ذکرِ رسول کا انداز

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مُؤَذِّن سے اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ سُن کردونوں انگوٹھوں کو اپنی دونوں آنکھوں سے لگایا۔([1])

(2)سیِّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا اندازِ ذكرِ رسول

حضرت سیّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت سیّدُنا اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ جب مکی مدنی سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذِکْر

کرتے تو عشقِ رسول سے بے تاب ہو کر رونے لگتے۔([2])

(3)سیّدُنا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا اندازِ ذکرِ رسول

حضرت سیّدُنا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے جب احادیثِ مبارَکہ سنانی ہوتیں (تو غُسل کرتے)، چَوکی(مَسنَد) بچھائی جاتی اور آپ رحمۃ اللہ علیہ عمدہ لباس زیبِ تن فرما کر خوشبو لگا کر نہایت عاجزی کے ساتھ اپنے حُجرۂ مبارَکہ سے باہَر تشریف لا کر اس پر با ادب بیٹھتے (درسِ حدیث کے دوران کبھی پہلو نہ بدلتے) اور جب تک اُس مجلس میں حدیثیں پڑھی جاتیں اَنگیٹھی میں عُود و لُوبان سُلگتا رہتا۔([3])

(4) مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ کے ذکرِ رسول کا انداز

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ زبردست عاشقِ رسول تھے، سرورِ دو جہان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکرِ مبارک آتا تو بے اِختیار آپ رحمۃ اللہ علیہ پر سوزوگداز کی ایک مخصوص کیفیت طاری ہو جاتی جس کے نتیجے میں آنکھ میں آنسو بھر آتے اور آواز بھاری ہو جاتی، آپ رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھنے اور سننے والے ہزارہا افراد بھی اس کیفیت کو محسوس کر لیا کرتے تھے۔([4])

محمد شاف عطاری بن صغير احمد

(درجہ ثانیہ، جامعۃ المدینہ فیضان عثمان غنی کراچی)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں



([1])فیضانِ صدیقِ اکبر، ص186ماخوذاً

([2])فیضانِ فاروقِ اعظم، 1/342

([3])عاشقانِ رسول کی130حکایات، ص43

([4])فیضان مفتی احمد یار خان نعیمی، ص41، 42۔