محمد
اسماعیل عطاری (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضانِ بخاری موسیٰ لین کراچی، پاکستان)
حضرت آدم علیہ السّلام کی نہ ماں ہے نہ باپ بلکہ اللہ پاک
نے ان کو مٹی سے بنایا ہے۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص243)
حضرت آدم علیہ السّلام کی کنیت ابو محمد یا ابو البشر اور
آپ کا لقب خلیفۃ اللہ ہے اور آپ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں۔آپ نے 960 برس
کی عمر پائی اور بوقت وفات آپ کی اولاد کی تعداد ایک لاکھ ہو چکی تھی جنہوں نے طرح
طرح کی صنعتوں اور عمارتوں سے زمین کو آباد کیا۔(تفسیر صاوی، پ1، البقرۃ: 30، ج1،
ص48)
قرآن مجید نے حضرت آدم علیہ السّلام کے مختلف واقعات بیان
فرمائے ہیں جو نصیحتوں کو اپنے ضمن میں لیے ہوئے ہیں آئیے ہم بھی ان واقعات سے نصیحت
کے مدنی پھول چننے کی کوشش کرتے ہیں:
پہلی
نصیحت:اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو مٹی سے بنایا اور
حضرت حوا رضی اللہ عنہا کو حضرت آدم کی پسلی سے پیدا فرمایا۔
اس سے معلوم ہوا کہ خداوند قدوس ایسا قادر اور قیوم اور
خلاق ہے کہ انسانوں کو کسی خاص ایک ہی طریقے سے پیدا فرمانے کا پابند نہیں ہے بلکہ
وہ ایسی عظیم قدرت والا ہے کہ وہ جس طرح چاہے انسانوں کو پیدا فرما دے۔رب تعالیٰ
نے انسانوں کو چار طریقوں سے پیدا فرمایا۔ اول یہ کہ مرد و عورت دونوں کے ملاپ سے
جیسا کہ عام طور پر انسانوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ دوم یہ کہ تنہا مرد سے ایک انسان پیدا
ہواور وہ حضرت حوا رضی اللہ عنہا ہیں کہ اللہ پاک نے ان کو حضرت آدم علیہ السّلام
کی بائیں پسلی سے پیدا فرما دیا۔ سوم یہ کہ تنہا ایک عورت سے ایک انسان پیدا ہو اور
وہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام ہیں جو کہ پاک دامن کنواری بی بی مریم علیہا السلام کے
شکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے ۔ چھا رم یہ کہ بغیر مرد و عورت کے بھی ایک انسان کو
خداوند قدوس نے پیدا فرما دیا اور وہ انسان حضرت آدم علیہ السّلام ہیں کہ اللہ نے
ان کو مٹی سے بنا دیا۔ (عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص246)
دوسری نصیحت:جب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کو اپنی خلافت سے سرفراز فرمانے کا
ارادہ فرمایا تو اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ اور فرشتوں میں جو مکالمہ ہوا وہ بہت ہی
تعجب خیز ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ہی فکر انگیز اور عبرت آموز بھی ہے جسے قرآن مجید
پارہ 1 سورۂ بقرہ آیت 30 تا 34 میں یوں بیان کیا گیاہے: وَ اِذْ
قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-قَالُوْۤا
اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ
نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا
تَعْلَمُوْنَ(۳۰) وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى
الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ
صٰدِقِیْنَ(۳۱) قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا
عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) قَالَ یٰۤاٰدَمُ
اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآىٕهِمْۚ-فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآىٕهِمْۙ-قَالَ
اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۙ-وَ
اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ(۳۳) وَ اِذْ قُلْنَا
لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ
اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں
سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو
اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرےاور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے
اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔ اور اللہ تعالیٰ
نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے
ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔ بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں
سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔ فرمایا اے آدم
بتادے انہیں سب اشیاء کے نام جب آدم نے انہیں سب کے نام بتادئیے فرمایا میں نہ
کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں
جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔ اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو
حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا
اور کافر ہوگیا۔(پ1، البقرۃ: 30تا 34)
کیا تو زمین میں اسے نائب بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے
گا اور خون بہائے گاحالانکہ ہم تیری حمد کرتے ہوئے تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری
پاکی بیان کرتے ہیں فرمایا: بیشک میں وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے اور اللہ
تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھادیے پھر ان سب اشیاء کو فرشتوں کے سامنے پیش
کرکے فرمایا: اگر تم سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔ (فرشتوں نے)عرض کی: (اے
اللہ!)تو پاک ہے۔ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا دیا، بے شک تو ہی
علم والا، حکمت والا ہے (پھر اللہ نے)فرمایا: اے آدم!تم انہیں ان اشیاء کے نام
بتادو۔تو جب آدم نے انہیں ان اشیاء کے نام بتادیئے تو(اللہ نے)فرمایا:(اے فرشتو!)کیا
میں نے تمہیں نہ کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی تمام چھپی چیزیں جانتا ہوں
اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اوریاد کروجب ہم
نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا۔اس نے
انکار کیا اور تکبر کیا اور کافر ہوگیا۔
اس سے ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ اللہ پاک جو سب سے زیادہ
علم و قدرت والا ہے اور فاعل مختار ہے جب وہ اپنے ملائکہ سے مشورہ فرماتا ہے تو
بندے جن کا علم اور اقتدار و اختیار بہت ہی کم ہے تو انہیں بھی چاہیے کہ وہ جس کسی
کام کا ارادہ کریں تو اپنے مخلص دوستوں اور صاحبان عقل ہمدردوں سے اپنے کام کے
بارے میں مشورہ کر لیا کریں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا مقدس دستور ہے۔(عجائب
القرآن مع غرائب القرآن، ص 250)
تیسری نصیحت:فرشتوں نے حضرت آدم علیہ السّلام کے بارے میں یہ کہا کہ وہ فسادی اور خوں ریز
ہیں لہٰذا ان کو خلافت الٰہیہ سے سرفراز کرنے سے بہتر یہ ہے کہ ہم فرشتوں کو خلافت
کا شرف بخشا جائے کیونکہ ہم ملائکہ خدا کی تسبیح و تقدیس اور اس کی حمد و ثنا کو
اپنا شعار زندگی بنائے ہوئے ہیں۔
اس سے یہ معلوم
ہوتا ہے کہ چونکہ بندے خداوند قدوس کے افعال اور اس کے کاموں کے مصلحتیں اور
حکمتوں سے کماحقہ واقف نہیں ہیں اس لیے بندوں پر لازم ہے کہ اللہ کے کسی فعل پر
تنقید و تبصرہ سے اپنی زبان کو روکے رہیں۔اور اپنی کم عقلی و کوتاہ فہمی کا اعتراف
کرتے ہوئے یہ ایمان رکھیں اور زبان سے اعلان کرتے رہیں کہ اللہ نے جو کچھ کیا اور
جیسا بھی کیا بہرحال وہی حق ہے اور اللہ تعالیٰ ہی اپنے کاموں کی حکمتوں اور
مصلحتوں کو خوب جانتا ہے جن کا ہم بندوں کو علم نہیں۔(المرجع السابق، ص252، 253)
چوتھی نصیحت:ابلیس نے حضرت آدم علیہ السّلام کو خاک کا پتلا کہہ کر ان کی تحقیر کی اور
اپنے کو آتشی مخلوق کہہ کر اپنی بڑائی اور تکبر کا اظہار کیا اور سجدۂ آدم علیہ
السّلام سے انکار کیا درحقیقت شیطان کے اس انکار کا باعث اس کا تکبر تھا۔
اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ تکبر وہ بری شے ہے کہ بڑے سے بڑے
بلند مراتب و درجات والے کو ذلت کے عذاب میں گرفتار کر دیتی ہے بلکہ بعض اوقات
تکبر کفر تک پہنچا دیتا ہے اور تکبر کے ساتھ ساتھ جب محبوبان بارگاہ الٰہی کی توہین
اور تحقیر کا بھی جذبہ ہو تو پھر تو اس کی شناعت و خباثت اور بے پناہ منحوسیت کا
کوئی اندازہ ہی نہیں کر سکتا۔(المرجع السابق ص255)
پانچویں نصیحت:حضرت آدم علیہ السّلام کو اللہ پاک نے کتنے اور کس قدر علوم عطا فرمائے اور
کن کن چیزوں کے علوم و معارف کو عالم الغیب والشہادۃ نے ایک لمحہ کے اندر ان کے سینہ
اقدس میں بذریعہ الہام جمع فرما دیا جن کی بدولت حضرت آدم علیہ السّلام علوم و
معارف کی کتنی بلند ترین منزل پر فائز ہو گئے کہ فرشتوں کی مقدس جماعت آپ کے علمی
وقار و عرفانی عظمت و اقتدار کے روبرو سربسجود ہو گئی۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن،
ص 255)
اس سے معلوم ہوا کہ جب حضرت آدم علیہ السّلام کے علوم و
معارف کی یہ منزل ہے تو پھر حضور سید آدم و سرور اولادِ آدم خلیفۃ اللہ الاعظم
حضرت محمد رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علوم عالیہ کی کثرت و وسعت
اور ان کے رفعت و عظمت کا کیا عالم ہوگا واللہ! حضرت آدم علیہ السّلام کے علوم کو
سرکار دو عالم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے علوم سے اتنی بھی نسبت نہیں ہو سکتی
جتنی کہ ایک قطرے کو سمندر سے اور ایک ذرے کو تمام روئے زمین سے نسبت ہے اللہ اکبر
کہاں علومِ آدم اور کہاں علومِ سیدِ عالم!
فرش تا عرش سب آئینہ، ضمائر حاضر بس قسم کھائیے امید تیری
دانائی کی