فطری طور پر ہر انسان کا اپنا الگ مزاج ہے، ہم ہر روز دیکھتے ہیں کہ معاشرے
میں مختلف سطح کے باہمی تعلقات میں غلط فہمیاں، ناچاقی کا باعث بن جاتی ہیں، ایک بات
واضح ہے کہ اختلاف وہیں ہوگا، جہاں کوئی قریبی تعلق ہو۔
صلح کروانا عبادت ہے، ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے
اور اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں صلح کروانے کا حکم بھی ارشاد فرمایا، پارہ 26،
سورہ حجرات کی آیت نمبر 9 میں اللہ عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:
وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا
بَيْنَهُمَا١ۚ ترجمہ کنزالایمان:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں
تو ان میں صلح کراؤ۔"
احادیث مبارکہ:
حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ ذیشان صلی اللہ علیہ
وسلم کا فرمان ہے:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا، اللہ عزوجل اس کا
معاملہ درست فرمائے گا اور ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا
فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے
گا۔"
کونسی صلح کروانا جائز نہیں؟
حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"وہ صلح جو حرام
کو حلال کر دے اور حلال کو حرام کر دے، اس میں صلح کروانا جائز نہیں۔"