اسلام
امن و سلامتی والا عالمگیر مذہب ہے، یہ مسلمانوں کے آپس کے لڑائی جھگڑوں، ناراضگیوں،
منافرت و قطع تعلقی سے بچنے اور اتفاق و اتحاد و امن و سلامتی کے ساتھ مل جل کر
رہنے کا درس دیتا ہے ہے اور اگر کبھی کوئی مسلمان کسی معاملے میں دوسرے مسلمان سے
لڑ پڑے، ناراض ہوجائے تو دیگر مسلمانوں کو ان میں صلح کروانے کا حکم دیتا ہے، تاکہ
مسلمان متحد ہو کر رہیں، متفرق نہ ہوں، مسلمانوں میں صلح کروانے والوں کے لئے قرآن
و حدیث میں جا بجا فضائل بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ترجمہ
کنز الایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح
کرو۔"(پ26، حجرات:10)
چنانچہ
حضرت ام کلثوم، بنتِ عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"وہ شخص جھوٹا نہیں، جو لوگوں کے
درمیان صلح کروائے کہ اچھی بات پہنچاتا یا اچھی بات کہتا ہے۔"(بخاری، کتاب
الصلح،2/210، حدیث نمبر 2692)
حضرت
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا
میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں، جو درجے میں روزے، نماز اور زکوة سے بھی افضل ہے؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں، فرمایا:آپس
میں صلح کروا دینا۔"(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین 4/245،ح
4919)
ایک
روز سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، چہرہ مبارک پر تبسم نمودار
ہوا، جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کی، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے
ماں باپ آپ پر قربان! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس لئے تبسم فرمایا؟ارشاد فرمایا:
میرے دو امتی اللہ کریم کی بارگاہ میں دو زانو ہو کر گر پڑیں گے، ایک عرض کرے گا، یا
اللہ اس سے میرا انصاف دلا، کہ اس نے مجھ پر ظلم کیا تھا، اللہ کریم مدّعی(یعنی
دعویٰ کرنے والے) سے فرمائے گا، تم اپنے بھائی کے ساتھ کیا کرو گے، اس کے پاس تو
کوئی نیکی باقی نہیں، مظلوم عرض کرے گا:میرے گناہ اس کے ذمے ڈال دے، اتنا ارشاد
فرماکر سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم روپڑے، فرمایا:وہ دن بہت عظیم دن ہوگا، کیونکہ
اس وقت ہر ایک اس بات کا ضرورت مند ہو گا کہ اس کے گناہوں کا بوجھ ہلکا ہو، اللہ
پاک مظلوم سے فرمائے گا، دیکھ تیرے سامنے کیا ہے؟ وہ عرض کرے گا، اے پروردگار! میں
اپنے سامنے سونے کے بڑے بڑے شہر اور بڑے بڑے محلات دیکھ رہا ہوں، جو موتیوں سے
آراستہ ہیں، یہ شہر اور عمدہ محلات کس پیغمبر یا صدیق یا شہید کے لئے ہیں؟ اللہ کریم
فرمائے گا: یہ اس کے لئے ہیں، جو ان کی قیمت ادا کرے، بندہ عرض کرے گا:ان کی قیمت
کون ادا کرسکتا ہے؟اللہ کریم فرمائے گا: تو ادا کرسکتا ہے، عرض کرے گا:کس طرح؟
اللہ کریم فرمائے گا:اس طرح کہ تو انے بھائی کے حقوق معاف فرما دے، بندہ عرض کرے
گا:یا اللہ میں نے سب حقوق معاف کئے، اللہ پاک فرمائے گا، اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑو
اور جنت میں چلے جاؤ۔ پھر سرکارِ نامدار اللہ نے فرمایا:"اللہ سے ڈرو اور
مخلوق میں صلح کرواؤ، کیونکہ اللہ نے بھی بروزِ قیامت مسلمانوں میں صلح کروائے گا۔"(مستدرک
للحاکم،5/795، حدیث8758)
ایک
اور جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"کیا میں تمہیں ایسے
عمل کے بارے میں نہ بتاؤں، جسے اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں؟ وہ یہ ہے کہ جب
لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہو کر روٹھ جائیں تو ان میں صلح کروا دو۔"(الترغیب
والتر ہیب، 3/321، حدیث8)
لہذا ہمیں بھی چاہیئے ان فضائل کو حاصل کرنے کے
لئے روٹھنے والے مسلمانوں میں صلح کروا دیا کریں، پہلے ربّ تعالیٰ کی بارگاہ میں
دعا کیجئے، پھر فریقین کو الگ الگ بٹھا کر ان کی سنیں، پھر نرمی سے صلح کے فضائل بیان
کریں اور آپس کے اختلافات کے نقصانات بیان کریں، پھر آمنے سامنے بٹھا کر صلح کروادیں،
لیکن یہ بھی یاد رہے کہ صلح کروانا بے شک افضل ترین عبادت ہے، لیکن صلح کرواتے وقت
یہ ذہن میں رہے کہ مسلمانوں میں صرف وہی صلح کروانا جائز ہے، جس میں شرعی طور پر
قباحت(برائی) نہ ہو، چنانچہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مسلمانوں
کے مابین صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح (جائز نہیں)، جو حرام کو حلال کر دے یا
حلال کو حرام کر دے۔"(ابوداؤد 3/425، ح3594)
حکیم
الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:"زوجین
میں اس طرح صلح کرائی جائے کہ خاوند اس عورت کی سوکن(اپنی دوسری بیوی) کے پاس نہ
جائے گا یا مسلمان مقروض اس قدر شراب وسود اپنے کافر قرض خواہ کو دے گا، پہلی صورت میں حلال کو حرام کیا گیا اور دوسری
صورت میں حرام کو حلال، اس قسم کی صلحیں حرام ہیں، جن کا توڑ دینا واجب ہے۔(مراۃالمناجیح،4/303)
اللہ
کریم سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور شریعت کی حدود میں
رہتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان صلح کروانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
تو
برائے وصل کردن آمدی
نے
برائے فصل کردن آمدی
یعنی
تو جوڑ(محبت) پیدا کرنے کے لئے آیا ہے، توڑ(نفرت)پیدا کرنے کے لئے نہیں آیا۔