صلح ایک اہم موضوع ہے، صلح کروانا جسے ہم اردو میں مصالحت اور مفاہمت بھی کہتے ہیں، جو کہ ایک عظیم ثواب رکھتا ہے، اس کی بے پناہ فضیلتیں ہیں، نیز قرآن مجید میں 180 بار لفظ اصلاح آیا ہے، صلح کرانا ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت ہے اور ربّ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں بھی صلح کروانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔

قرآن مجید کی روشنی میں صلح کی فضیلتیں:

پارہ 26، سورہ حجرات، آیت نمبر9 میں خدائے رحمٰن عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:

وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا١ۚ ترجمہ کنزالایمان:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔"

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمانِ عالیشان ہے:

وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ١ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ١ؕ ترجمہ کنزالایمان:"اور صلح خوب ہے اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں۔"

احادیث مبارکہ کی روشنی میں:

احادیث مبارکہ میں صلح کروانے کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں، چنانچہ پیارے آقا، مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:"کہ سب سے افضل صدقہ آپس میں صلح کروانا ہے۔"

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا، اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست فرمائے گا اور ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔"

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:"کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیے،ارشاد فرمایا:وہ عمل جو آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔"

نوٹ: ان آیات و روایات سے صلح کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات معلوم ہوئے، لہٰذا جب کبھی مسلمانوں میں ناراضگی ہو جائے تو ان کے درمیان صلح کروا کر یہ فضائل حاصل کرنے چاہئیں، جیسا کہ خدائے رحمٰن کا فرمانِ عالیشان ہے:

ترجمہ کنزالایمان:"اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔"

صلح کروانے والوں کا قیامت کے دن مقام:

پیاری بہنوں!صلح کروانے والوں کو قیامت کے دن کثرت سے نفلی عبادات، نمازوں، روزوں میں مشغول رہنے والوں اور صدقہ و خیرات میں لاکھوں، کروڑوں، اربوں خرچ کرنے والے سے بھی زیادہ بلند و بالا مقام پر فائز کیا جائے گا، یہ مقام ان کو ملتا ہے، جو دو ناراض لوگوں میں صلح کرانے کو اپنی زندگی کا مشن بنا لے۔

اپنے معاشرے میں، اپنے خاندان میں، اپنے رشتہ داروں میں ایسے لوگوں کو تلاش کریں، جو ایک دوسرے سے دور ہو چکے ہیں اور عین ممکن ہے کہ اپنے مخالفین سے صلح کرنا بھی چاہتے ہیں، بلکہ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ دونوں کے دلوں میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی مخلص و سنجیدہ، معاملہ فہم ہمارے درمیان فیصلہ کرا دے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک پارٹی ایسی ہوتی ہے، جو سمجھتی ہے کہ دوسرا ہم سے صلح کرنا ہی نہیں چاہتا، بلکہ یہ ان کی غلط فہمی ہوتی ہے، پس ایک تیسرے بندے کی ضرورت ہوتی ہے، جو اپنی گفتگو کے دوران ان باتوں سے اندازہ لگا لے اور تھوڑی سی کوشش سے غلطیوں کا ازالہ کرائے، فریقین کو مثبت باتیں بتانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

جیسا کہ فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"وہ آدمی جھوٹا نہیں ہے، جو باہمی لڑنے والوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کرے اور اس سلسلے میں خیر و بھلائی کی باتیں کریں۔"

نوٹ:دو مخالفین میں صلح کرانے کے لئے اگر کوئی جھوٹ بولے تو وہ بھی معاف ہے۔

پس اسلامی بہنوں! ایک ایسے مخلص شخص کی ضرورت ہوتی ہے، پس آپ اپنے معاشرے میں وہ تیسرا فریق بن جائیں، پس ایسے لوگوں کو تلاش کریں، لوگ منتظر ہیں وہ ضرورت مند ہیں، جیسے ایک غریب کو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، بھوکے کو کھانے کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے ہی مخالفین کو صلح کرانے والے کی ضرورت ہوتی ہے۔

جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق:"سب سے بڑا صدقہ ان ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنا ہے۔"

دیکھئے! اگر آپ غریب ہیں آپ چاہتے ہیں کہ آپ بھی صدقہ دینے والوں میں شمار ہو جائیں تو آج یہ ارادہ کریں، بلکہ اپنی ذات کو صلح کرانے والی تحریک بنا لیں، بلکہ رضائے الہی عزوجل کے لئے اپنی زندگی کا مشن(مقصد) بنا لیں۔

میرا ہر عمل بس تیرے واسطے ہو

کر اخلاص ایسا عطا یا الہی