(1) واجباتِ
نماز میں سے کوئی واجب بھولے سے رہ جائے تو اس کی تلافی کے لیے سجدہ سہو واجب ہے۔
(
عامہ کتب، بہار شریعت،حصہ چہارم، ص 278، ج1،شرح الوقایۃ، کتاب الصلاۃ، باب
سجودالسہو، ج 1 ، ص22)
(2)
وتر میں شک ہوا کہ دوسری ہے یا تیسری، تو اس میں قنوت پڑھ کر قعدے کے بعد ایک رکعت
اور پڑھے اور اس میں بھی قنوت پڑھے اور سجدہ سہو کر لے۔
(عالمگیری، بہار شریعت، حصہ چہارم، ص 719، ج 1)
(3)
تشہد کے بعد یہ شک ہوا کہ تین ہوئیں یا چار اور ایک رُکن کی قدر خاموش رہا اور
سوچتا رہا، پھر یقین ہوا کہ چار ہو گئیں، تو سجدہ سہو واجب ہے۔
(عالمگیری،
بہار شریعت، حصہ چہارم، ص 719، ج 1، الفتاوی الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الثانی عشرفی
سجودالسہو، ، ج1 ، ص128)
(4)
شک کی سب صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہے اور غلبۂ ظن میں نہیں، مگر جبکہ سوچنے میں
ایک رکن کا وقفہ ہوگیا، تو واجب ہوگیا۔( در مختار، ، بہار شریعت، حصہ چہارم، ص 719،
ج 1)
(الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب سجودالسہو، ج 2
، ص 678)
(5)
قعدہ اولیٰ میں تشہد کے بعد اتنا پڑھا، ”اللھم
صلی علی محمد“ تو سجدہ سہو واجب ہے، اس وجہ سے نہیں کہ درود شریف
پڑھابلکہ ا س وجہ سے کہ تیسری کے قیام میں تاخیر ہوئی، تو اگر اتنی دیر تک چُپ رہا،
جب بھی سجدہ سہو ہے، جیسےقعدہ و رکوع و سجود میں قرآن پڑھنے سے سجدہ سہو واجب ہے ،
حالانکہ وہ کلام ِالہی ہے۔( در مختار، رد المحتاروغیر ہما ، بہار شریعت، حصہ چہارم،
ص 713، ج 1،الدر المختار و رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب سجودالسہو، ج2، ص657 ، وغیرھما)
( ردالمحتار،
بہار شریعت، حصہ چہارم، ص 716، ج 1)
(6) رکوع کی جگہ سجدہ کیا یا سجدے کی جگہ رکوع یا
کسی ایسے رکن کو دوبارہ کیا جو نماز میں مکرر مشروع نہ تھا یا کسی رکن کو مقدم یا
مؤخر کیا، تو سجدہ سہو واجب ہے۔
( عالمگیری،
بہار شریعت، حصہ چہارم، ص 714، ج 1)
(7)
الحمد کے بعد سورت پڑھی اس کے بعد پھر الحمد پڑی، تو سجدہ سہو واجب نہیں، یوں ہی
فرض کی پچھلی رکعتوں میں فاتحہ کی تکرار سے مطلقاً سجدہ سہو واجب نہیں، اور اگر
پہلی رکعتوں میں الحمد کا زیادہ حصہ پڑھ لیا تھا، پھر اعادہ کیا تو سجدہ سہو واجب
ہے۔
(
عالمگیری، بہار شریعت، حصہ چہارم، ص 711، ج 1، الفتاوی الہندیۃ، کتاب الصلاۃ، الباب الثانی عشرفی سجودالسہو، ج1، ص126)