علی زین (درجۂ
سابعہ جامعۃ المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
رعایا اور
سلطنت دو ایسے اجزاء ہیں جو ایک دوسرے کا جزولاینفک ہیں اور ان میں اسے ایک جزو کے
نا ہونے کی صورت میں دوسرے جزو کا عدم
ہونا ظاہر و ثابت ہے۔ تاہم ریاست ایک تجریدی شے ہے، جس کا صفحہ ہستی پہ اظہار چند
کرداروں کی صورت میں ہوتا ہے اور یہی چند کردار ریاست کے کردار، افکار، بیانیہ اور
قانون کو مرتب کر کے رعایا کو اس کی بات
کا پابند کرتے ہیں کہ وہ اپنی سوچ، فکر، عمل اور تحریک کو ریاست کے ان بنیادی
خدوخال کے مطابق ڈھال کر اپنے آپ کو اس طرح منظم کریں کہ منہج ریاست اور
انفرادی منہج میں تطبیق قائم ہو جائے اور یوں کسی بھی قسم کے انتشار کو سر اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔ لیکن جہاں
جہاں ان دونوں کے درمیان منہج کا اختلاف واقع ہوتا ہے، وہاں داخلی اور خارجی
انتشار کے لئے زمین ہموار ہو جاتی ہے تو معاشرہ شکست سے دوچار ہو کر اپنا وجود گنوا بیٹھتا ہے۔
دنیا میں ہم
انسان جہاں بھی ہوں، جس شکل میں بھی ہوں اور جن حالات میں بھی ہوں، ہماری زندگی کا
دار و مدار دراصل معاشرے کے ہی اوپر ہے اور یہی معاشرہ جب اپنی بنیادی سطح سے بلند ہوتا ہے تو اس میں رعایا اور سلطنت کے نام سے دو گروہ
واضح ہو جاتے ہیں، جن میں سے ایک کی حیثیت بالترتیب محکوم اور دوسرے کی حاکم کی
ہوتی ہے۔ تاہم جیسے معاشرے میں رہنے والے تمام انسان حقوق و فرائض کی بنیادی ذمہ
داری سے بری الذمہ نہیں ہیں، ویسے ہی ان دو طبقات کے اوپر بھی حقوق و فرائض کی ذمہ
داری پوری پوری عائد ہوتی ہے۔
کوئی بھی
معاشرہ یا ملک اسی صورت میں اجتماعی ترقی کر سکتا ہے کہ جب، وہاں رعایا اور سلطنت
کے مابین تقسیم شدہ حقوق و فرائض میں مساوات پائی جاتی ہو اور جہاں ہر دو
طبقات اپنی بنیادی ذمہ داریاں امانت داری سے نبھاتے ہیں
تاہم جہاں حقوق و فرائض کی ادائیگی میں عدم توازن، یا غفلت کا ہونا روزمرہ کا معمول سمجھا جاتا ہو
اور جہاں اس جرم کو جرم ہی نہ مانا جاتا ہو وہاں امن، محبت، قانون کی پاسداری،
خوشحالی، امانت، سچائی اور دوسرے نیک اوصاف کو تلاش کرنے کا مطلب گویا وقت کا ضیاع
ہے ۔
اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں اور ان عناصر کا جائزہ لیں جو
کسی بھی سلطنت کے قیام اور اس کی بقاء کے واسطے لازم ہیں تو ان میں سب سے اہم
جزو اس ملک کا آئین ہوتا ہے۔ آئین دراصل
وہ دستاویز ہے جو سلطنت اور رعایا کے حقوق و فرائض کی نہ صرف تفصیل واضح کرتی ہے
بلکہ، وہ ان ہر دو طبقات کو اپنی اس بنیادی ذمہ داری کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ جب بھی کسی علاقے میں کسی سلطنت نے استحکام کی حالت کو پا لیا
تو اس کے بعد اس نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو واضح کرتے ہوئے اپنے کاروبار سلطنت کے عزائم کو واضح کیا
تاکہ سلطنت اور رعایا کے درمیان رشتہ مضبوط ہو سکے اور ساتھ ہی داخلی اور خارجی
استحکام بھی میسر آ سکے۔
لہٰذا جب ایک
ریاست اپنا آئین مرتب کر لیتی ہے تو گویا اس نے اپنے اور رعایا کے درمیان حقوق و فرائض کی تقسیم کو واضح کر کے ہر دو کے درمیان
ایک حد قائم کر دی ہے کہ جس کو پلٹنے کا
مطلب گویا اس توازن میں انتشار لا کر بنیادی ڈھانچے کو گرانا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ
جب ایک سلطنت اپنا آئین مرتب کر لیتی ہے تو وہ اپنے آپ کو اور رعایا کو اس بات کا کلی پابند کرتی ہے کہ ہر دو طبقات اس آئین کے
ساتھ وفاداری نبھاتے ہوئے اپنی زندگی کا لائحہ عمل اور اپنی سوچ کا محور اس کو ہی مانیں گے۔
جب ایک
سلطنت اپنا آئین مرتب کر لیتی ہے تو گویا وہ کاروبار حکومت
کا آغاز کرتی ہے، جس کے تحت اس نے اپنی رعایا کو اس کے وہ تمام بنیادی
حقوق جس کا وعدہ اس نے آئین کے اندر کیا ہے ان کو فراہم کرے گی۔ اور دوسری طرف رعایا
اسی آئین کو تسلیم کرتے ہوئے اس مدعا کو دہراتی ہے کہ وہ اپنی سلطنت کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے اس کی ترقی میں اپنا حصہ ڈال کر اس کو مضبوط اور مستحکم کرے گی۔
لہذا ریاست کے
ساتھ ساتھ عوام کا بھی حق ہے کہ عوام ریاست کے ساتھ وفاداری کرے تاکہ ریاست اور
رعایا میں مستحکم رشتہ قائم ہو سکے اور جب ریاست اور رعایا ایک دوسرے کے وفادار
ہونگے تو ایک قابل رشک اور ترقی یافتہ معاشرہ تشکیل پائے گا۔