ایمان سے مراد ضروریاتِ دین کا اقرار کرنا اور حضور جانِ عالم  ﷺ کواپنا حاکم اور خود کو آپ کا غلام تصورکرنا ہے، جبکہ اسلام سے مراد فرما نبردار ہونا ہے، یعنی اللہ عزوجل اور اسکے حبیب علیہ الصلوۃ والتسليم کے احکامات پر عمل کرنا ہے، گویا ایمان کا تعلق دل کے ماننے سے ہے اور اسلام کا تعلق جسم کے ماننے سے ہے، جو شخص دل سے ایمان لے آیا، اس کے لیے ضروری ہے کہ جسم سے اس کا اظہار بھی کرے کہ حدودُ اللہ سے تجاوز نہ کرے اور احکام پر عمل پیرا ہوکر ربّ کی رضا حاصل کرے، جو اس کے برعکس ہے تو ربّ عزوجل اورحضور نبی کریم ﷺ کی ناراضی مول لے اور پھر انسان وہ ناراضی لے کے جائے گا کہاں، اس کا فیصلہ خود کرلے، قرآن عظیم میں مؤمنوں کے لئے جو احکام ارشاد فرمائے گئے، ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں۔

1۔ درودو سلام:

قرآن کریم میں مؤمنوں کو اپنے شفیق آقا ﷺ پر درود اور خوب سلام پڑھنے کا حکم فرمایا گیا،

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا(الاحزاب:56) ترجمہ:اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔

2۔صبر اور نماز سے استعانت:

اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے مدد طلب کرو۔(البقره : 153)حضور علیہ السلام کو جب کوئی مشکل پیش آتی توآقاجان ﷺ نماز میں مشغول ہوجاتے۔(ابوداؤد، 52/2 ،حدیث1319 )

3۔روزے کا حکم:

اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کئے گئے۔(البقرہ : 183)روزے سے مراد صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک خود کو کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے روکے رکھنا ہے، اس کا حکم اس لئے دیا گیا کہ ایمان والے تقوی اختیار کریں اور پرہیزگار بن جائیں۔

4۔تقوى:

اے ایمان والو !الله سے ڈرو، جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے۔(آل عمران : 102) ایمان والوں کو ڈرنے اور گناہوں سے بچنے کا حکم دیا گیا،

5۔سودسے بچنے کا حکم:

سود حرامِ قطعی ہے اور مؤمنوں کو اس سے بچنے کاحکم دیا گیا،

اے ایمان والو! سود نہ کھاؤ۔(آل عمران :130)اس کو حلال جاننے والا کافر ہے،آج کل معمولی باتوں میں بھی شرط لگا لی جاتی ہے، جس میں کئی صورتیں سود اور رشوت کی بنتی ہیں، ان پر غور کرنا چا ہئے اور اسکاعلم حاصل کرنا چاہئے۔

6۔فضول سوالات سے بچنے کا حکم:

اے ایمان والو! ایسی باتیں نہ پوچھو، جو تم پر ظاہر کی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔(المائده101)پیارے آقا صلی الله علیه وسلم نے فرمایا:بے شک تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء سے ( غیر ضر وری ) سوالات کرنے اور اختلاف کرنے کی وجہ ہلاکت کا شکار ہوئے۔(اربعین نووی، حدیث 59)

7۔شیطا ن کی پیروی سے ممانعت:

شیطان لعین مؤمنوں کا بدترین دشمن ہے، قرآن عظیم میں اس سے بچنے کا حکم ہے،

اے ایمان والو! شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔(النور:21)

8،9۔مذاق اڑانے اور طعنہ زنی سے ممانعت:

فرمایا:اے ایمان والو! مرد دوسرے مردوں پر نہ ہنسیں۔

کچھ آگے چل کر فرمایا:آپس میں ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو۔(الحجرات :11 )

10،11،12۔بدگمانی، تجسس اور غیبت کرنے کی ممانعت:

اے ایمان والو ! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو، بیشک کوئی گمان گناہ ہو جا تا ہے اور (پوشیدہ باتوں کی)جستجو نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔(الحجرات:12)

13۔کافروں کی پیروی سے بچنے کا حکم:

نجات اسی میں ہے کہ اللہ عزوجل اور اس کے محبوب ﷺ کی پیروی کی جائے، نہ کہ کفار کی،

اے ایمان والو ! اگر تم کا فروں کے کہنے پر چلے تو وہ تمہیں الٹے پاؤں پھیردیں گے، پھر تم نقصان اٹھا کر پلٹو گے۔(آل عمران: 149)

14،15۔طیب رزق کھانے اور شکر کا حکم:

فرمایا:اے ایمان والو!ہماری عطا کردہ ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔(البقرہ:172) اگر کوئی شخص نعمتوں کو باقی رکھنا چا ہتا ہے تو اسے چاہئے کہ شکرادا کرے۔

تو اے مؤمنو! ربّ تعالیٰ کے حکم کے آگے سرتسلیم خم کر دو، جیسے بڑوں نے کر دکھایا، پانچوں نمازوں میں صراط مستقیم پر چلانے کی دعا مانگنے والو! صراطِ مستقیم یہی ہے، اے محبوبِ کریم ﷺ کی پیاری امت!اپنے پیارے ربّ عزوجل کی نافرمانی کرکے اس کے پیارے محبوب ﷺ کے قلب منور و اطہر کو رنجیدہ نہ کرنا، اے ایمان والو!اپنے پیدا کرنے والے کی رضا کی جستجو میں لگ جاؤ، بهلائی بھی پالو گے، نجات بھی اور دائمی نعمتیں بھی۔