قرآنِ کریم میں بارگاہِ نبوی
کے 5 آداب از بنتِ جہانگیر، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
اس کار خانۂ قدرت
میں جس کو جو نعمتیں ملیں ادب ہی کی بنا پر ملیں۔ جو ادب سے محروم رہا وہ حقیقت میں
ہر نعمت سے محروم رہا۔ ادب ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو ممتاز بناتی ہے۔دنیا کے شہنشاہوں
کا اصول ہے جب ان میں سے کوئی شہنشاہ آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم کے اصول اور دربار کے
آداب خود بناتا ہے جب وہ چلا جاتا ہے تو تعظیم بھی ساتھ لے جاتا ہے۔ محمد مصطفٰےﷺ کی
ذات گرامی ہے جن کی تعظیم و توقیر کا اللہ پاک نے حکم دیا ہے۔ قرآن ِکریم میں آپ کی
تعظیم وادب کے با قاعدہ اصول اور احکام بیان فرمائے ہیں۔
1- سرکار دو عالم ﷺکی خدمت میں آواز بلندکرنے کو حرام
قرار دیا گیا۔ الله پاک کا فرمان ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ
بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ
اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ
کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس
میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر
نہ ہو۔
2-کسی قول و
فعل میں ان سے آگے نہ بڑھو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ
اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ
26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ
سُنتا جانتا ہے۔
3-حضور ﷺ جب بھی بلائیں فوراً ان کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ۔اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ (الانفال:24)ترجمہ
کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں
بلائیں۔
4-بارگاہِ رسالت میں کوئی بات عرض کرنے سے پہلے
صدقہ دے لو۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ
فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ
اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) (المجادلۃ: 12) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو جب
تم رسول سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو یہ
تمہارے لیے بہتر اور بہت ستھرا ہے پھر اگر تمہیں مقدور نہ ہو تو اللہ بخشنے والا
مہربان ہے۔
5-جس کلمہ میں ادب
ترک ہونے کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے جیسا کہ لفظ ”را عنا“کو تبدیل کرنے کا
حکم دینے سے یہ بات واضح ہے۔الله پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ
لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104)ترجمہ: اے ایمان والو ! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی
سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے اللہ پاک کے حبیب ﷺ کی زبان اقدس سے اللہ پاک کے
وہ احکام سنے جن میں آپ کی تعظیم و توقیر اور ان کی بابرکت بارگاہ کے ادب واحترام کی
شاندار مثالیں رقم ہیں، چونکہ انہیں حضور کا فیض بہت زیادہ حاصل تھا، لہٰذا وہ تاجدار
رسالت ﷺ سے بہت محبت کرتے اور تعظیم و توقیر میں کوتاہی کے کبھی مرتکب نہیں ہوتے بلکہ
ہمیشہ تعظیم و توقیر میں اضافہ ہی کرتے تھے۔
حضور کا ادب بجالانے کا درس:توحید کانور صرف انہی دلوں میں اتارا جاتا ہے جن میں ادب مصطفٰے ہوتا ہےیعنی
ادب مصطفٰے کا صلہ نور توحید سے ملتا ہے۔ بے ادبی کفر ہے۔ ادب مصطفیٰ عین توحید ہے۔
گویایہ بات واضح ہوگئی کہ جس نے اللہ کی توحید کو سمجھنا ہو وہ حضور کے ادب کواپنالے
جو دل اللہ کی توحید کے لیے منتخب کر لیےجاتے ہیں وہی انوار الہیہ کی منزل ہوتے ہیں
لہٰذا کوئی توحید کے بارے میں پوچھے تو جواب ہے” ادب مصطفٰے“اور سب سے بڑا کفربے ادبی
مصطفٰے ہے۔یہ درس وہ ہے جو ادب والے عمر بھر دیتے رہے۔ اس درس کو اپنا لیں اس سے سارے
اعمال صالح مقبول اور نور بن جائیں گے۔ الله کریم ہمیں ایمان کے اصل جوہر کو پانے کی
توفیق عطا فر مائے۔آمین
حضرت عثمان کا واقعہ:حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ جب حضور ﷺ نے حدیبیہ
کے موقع پر آپ کو قریش کے پاس بھیجا تو قریش نے آپ کو طواف کی اجازت دے دی لیکن آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ماکنت لافعل حتی یطوف بہ رسول اللہ یعنی میں اس وقت تک طواف نہیں کر سکتا جب تک رسول ﷺ طواف نہیں
کرتے۔(شفاء، 2/39) اللہ کریم ہمیں سچی پکی عاشقہ رسول بنائے اورآقا ﷺ کی تعظیم کرنے والی
بنائے۔ آمین