حضرت محمدﷺ کی ذات انتہائی احترام کی متقاضی ہے۔آپ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ جو آپ کا احترام نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا اور وہ یوں سمجھے کہ معاذالله الله پاک کا احترام نہیں کرتا۔ارشاد ہوا: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پردرود بھیجتے ہیں۔اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔

جب رسول اللہﷺکا نام سنے تو چاہیے کہ درود بھیجے اور جو نہ بھیجے اس کے لیے کہا گیا ہے کہ وہ سب سے زیادہ بخیل شخص ہے۔

5 آداب قرآنی آیات و ترجمہ اور مختصر شرح کے ساتھ:

دربار رسول کا ادب یہ کہ آئیں بھی اجازت لے کر اور جائیں بھی اذن حاصل کر کے جیسا کہ غلاموں کا مولیٰ کے دربار میں طریقہ ہوتا ہے۔چنانچہ ارشاد ہوا: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اِذَا كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰۤى اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْهَبُوْا حَتّٰى یَسْتَاْذِنُوْهُؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۶۲) ( النور: 62) ترجمہ کنز الایمان: ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر یقین لائے اور جب رسول کے پاس کسی ایسے کام میں حاضر ہوئے ہوں جس کے لیے جمع کیے گئے ہوں تو نہ جائیں جب تک اُن سے اجازت نہ لے لیں وہ جو تم سے اجازت مانگتے ہیں وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں پھر جب وہ تم سے اجازت مانگیں اپنے کسی کام کے لیے تو ان میں جسے تم چاہو اجازت دے دو اور اُن کے لیے اللہ سے معافی مانگو بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

جو آپ سے اجازت مانگتے ہیں وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاتے ہیں،ان کا اجازت چاہنا فرمانبر داری کا نشان اور صحت ایمان کی دلیل ہے۔ اے محبوب! جب وہ آپ سے جانے کی اجازت مانگیں تو ان میں جسے تم چاہو اجازت دے دو اور ان کے لیے اللہ سے معافی مانگو، بیشک الله بخشنے والا ہے۔

(2) رسول اکرم ﷺکے پکارنے کو آپس میں ایسا معمولی نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔کیونکہ رسول اکرم ﷺجسے پکاریں اس پر جواب دینا اور عمل کرنا واجب ہے۔چنانچہ ارشاد باری ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔

ہمارا رسول ﷺ کی بارگاہ میں ادب سے حاضر ہونا لازم ہو جاتا ہے اور قریب حاضر ہونے کے لیے اجازت طلب کرے اور اجازت سے ہی واپس ہو۔ دوسرا یہ کہ اے لوگو!میرے حبیب کا نام لے کر نہ پکارو بلکہ تعظیم،تکریم،توقیر، نرم آواز کے ساتھ انہیں اس طرح کے الفاظ کے ساتھ پکارو” یارسول الله، یانبی اللہ،یاخاتم النبین“اس لیے آپ کو ”یا محمد“ کہہ کر پکارنے کی اجازت نہیں۔

(3) رسولﷺ کے حلم کی پیروی کرنا اور ان کی اطاعت کرنا اور ان کو دل و جان سے زیادہ محبوب جاننا اور جو نہیں کرتا تو اس کو دردناک عذاب سے بھی ڈرایا گیا ہے۔ فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۳) (النور:63 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ پہنچے یا اُن پر دردناک عذاب پڑے۔

آپ ﷺ کے حکم سے اعراض کرنے والے اور ان کی اجازت کے بغیر چلے جانے والے اس بات سے ڈریں کہ انہیں دنیا میں تکلیف،قتل،زلزلے یا دل کا سخت ہو کر معرفتِ الٰہی سے محروم رہنا وغیرہ کوئی مصیبت پہنچے یا انہیں آخرت میں دردناک عذاب پہنچے۔

(4) کسی قول اور فعل میں رسول اکرم ﷺ سے آگے نہ بڑھو۔فرمانِ باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

حضور ﷺ جب بھی بلائیں فورا ًان کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ اور الله کے رسول ﷺ سے آگے بڑھنے کی ہماری اوقات ہی کیا ہے کہ ہم آخری نبی ﷺ سے آگے بڑھیں۔

(5)بارگاہ رسالت میں کوئی بات عرض کرنے سے پہلے صدقہ دے لو اور ادب بھی کرو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) (المجادلۃ: 12) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو جب تم رسول سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو یہ تمہارے لیے بہتر اور بہت ستھرا ہے پھر اگر تمہیں مقدور نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ( بعد میں وجوب کا حکم منسوخ ہو گیا۔)

ان آداب کو بجالانے کا درس: توحید کا نور صرف انہی دلوں میں اتارا جاتا ہے جن میں ادب مصطفٰے ہوتا ہے۔ یعنی ادب مصطفٰے کا صلہ نور توحید سے ملتا ہے۔ بے ادبی کفر ہے اور ادب مصطفٰے عین توحید ہے۔ گویا یہ بات واضح ہوگئی کہ جس نے اللہ کی توحید کو سمجھا ہو وہ حضور ﷺکے آداب کو اپنانے، جو دل اللہ کی توحید کے لیے منتخب کر لیے جاتے ہیں وہی انوارِ الہیہ کی منزل ہوتے ہیں۔لہٰذا کوئی توحید کے بارے میں پوچھے تو جواب ہے ادبِ مصطفٰے۔ سب سے بڑا کفر بے ادبی مصطفٰے ہے۔

حضرت عثمان کا واقعہ: حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ جب حضورﷺ نے حدیبیہ کے موقع پر آپ کو قریش کے پاس بھیجا تو قریش نے آپ کوطواف کی اجازت دے دی لیکن آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ما کنت لافعل حتی یطوف بہ رسول اللہ میں اس وقت تک طواف نہیں کر سکتا جب تک رسولﷺ طواف نہیں کرتے۔ (الشفاء، 2/70)