1۔رسول:وَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا۔ترجمۂ کنزالایمان:اور اے محبوب ہم نے تمہیں سب لوگوں کے لئے رسول بھیجا۔(پ5، النساء:79) عرب ہوں یا عجم،آپ تمام خلق کے لئے رسول بنائے گئے اور کل جہاں آپ کا امتی کیا گیا اور سید عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی جلالت،منصب اور رفعت و منزلت کا بیان ہے۔2۔کلیم اللہ:اللہ پاک سے کلام فرمانے والا ۔مِنْہُمْ من کلم اللہ ورفع بعضہُمْ درجٰتٍ۔ترجمۂ کنزالایمان:ان میں سے کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے، جسے سب در جوں پر بلند کیا۔(پ3، البقرۃ:353)یعنی بے واسطہ، جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر کلام سے مشرف فرمایااور سید الانبیاء صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو معراج میں وہ حضورپرنور، سید الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں کہ آپ کو بدر جاتِ کثیرہ تمام انبیاء علیہم السلام پر افضل کیا، اس پر امت کا اجماع ہے۔ 3۔المدثر:چادر اوڑھنے والا۔یٰٓایُّھَا المدَّثِّر ترجمۂ کنزالایمان:اے بالا پوش اوڑھنے والے۔(پ29،المدثر:1) یہ خطاب حضور سید عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ہے۔شانِ نزول:حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عنہسے مروی ہے،سید عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میں کوہِ حراپر تھا، مجھے ندا کی گئی: یا محمد انک رسول اللّٰہ میں نے اپنے دائیں بائیں نظر کی تو کچھ نہ پایا، جب اوپر کی جانب نظر کی تو دیکھا کہ وہی فرشتہ جس نے ندا کی تھی، آسمان اور زمین کے درمیان بیٹھا ہے، یہ منظر دیکھ کر مجھ پر رعب طاری ہو گیا اور میں حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عنہا کے پاس آیا اور میں نے ان سے کہا:مجھے چادر اڑھاؤ، انہوں نے چادر اڑھا دی، اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا: یایھا المدثر۔4،5،6۔شاھد:گواہی دینے والا۔مبشر:خوشخبری سنانے والا۔نذیر:ڈرانے والا۔یٰٓاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ۔ترجمۂ کنزالایمان:اے غیب کی خبریں بتانے والے نبی بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوش خبری دیتا اور ڈر سناتا۔ (پ22،الاحزاب:45)شاھد کا ترجمہ حاضر ناظر بہت بہترین ترجمہ ہے۔مفردات راغب میں ہے:اَلشُّہُوْدُ وَالشَّہَادَۃُ الْجُنُوْدُ مَعَ الْمُشَاہَدَۃَ اِمَّا بَاالْبَصَرِ اَوْبِالْبَصِیْرَۃِ یعنی شہود اور شہادت کے معنی حاضر ہونا مع ناظر ہونے کے بصر کے ساتھ ہو یا بصیرت کے ساتھ اور گواہ کو بھی اس لئے شاہد کہتے ہیں کہ وہ مشاہدہ کے ساتھ جو علم رکھتا ہے، اس کو بیان کرتا ہے۔سیّد عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تمام عالم کی طرف مبعوث ہیں، آپ کی رسالت عامہ ہے، جیسا کہ سورۂ فرقان کی پہلی آیت میں بیان ہوا تو حضور پرنور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم قیامت تک ہونے والی ساری خلق کے شاہد ہیں اور ان کے اعمال و افعال و احوال،تصدیق،تکذیب،ہدایت،ضلال سب کا مشاہدہ فرماتے ہیں، یعنی ایمان داروں کو جنت کی خوشخبری اور کافروں کو عذابِ جہنم کا ڈر سنانا۔7،8۔سراج:چمکتا ہوا۔منیر:چراغ۔وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا ہے اور چمکا دینے والا آفتاب۔(پ22،الاحزاب:46)سراج کا ترجمہ آفتاب قرآنِ کریم کے بالکل مطابق ہے کہ اس میں آفتاب کو سراج فرمایا گیا ہے، جیسا کہ سورۂ ٔنوح میں وجعل الشمس سراجا اور آخری پارے کی پہلی سورت میں ہے:وجعلنا سراجا وہاجا اور درحقیقت ہزاروں آفتابوں سے زیادہ روشنی آپ کے نورِ نبوت نے پہنچائی اور کفرو شرک کے ظلماتِ شدیدہ کو اپنے نورِ حقیقت افروز سے دور کر دیا اور خلق کے لئے معرفت و توحیدِ الہٰی تک پہنچنے کی راہیں روشن اور واضح کردیں اور ضلالت کی وادی تاریک میں راہ گم کرنے والوں کو اپنے انوارِہدایت سے راہ یاب فرمایا اور اپنے نورِ نبوت سے ضمائر و بصائر اور قلوب و اَرواح کو منور کیا،حقیقت میں آپ کا وجود مبارک ایسا آفتاب عالم تاب ہے، جس نے ہزارہا آفتاب بنا دیئے،اسی لئے اس کی صفت میں منیر ارشاد فرمایا گیا۔9۔خاتم النبیین:آخر الانبیاء۔وَخَاتَمَ النَّبِیِّینَ ترجمۂ کنزالایمان: اور سب نبیوں میں پچھلے۔(پ22،احزاب،آیت نمبر 45)یعنی آخر الانبیاء کے نبوت آپ پر ختم ہوگئی، آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی، حتی کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پا چکے ہیں، مگر نزول کے بعد شریعتِ محمدیہ پرعامل ہوں گے اور اسی شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں گے۔حضور کا آخر الانبیاء ہونا قطعی ہے، نصِ قرآنی بھی اس میں وارد ہے اور صحابہ کی بکثرت احادیث جو حدِّ تواتر تک پہنچی ہیں،ان سب سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے پچھلے نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی ہونے والا نہیں، جو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نبوت کے بعد کسی اور کو نبوت ملنا ممکن جانے وہ ختمِ نبوت کا منکر اور کافر خارج اَز اسلام ہے۔10۔المزمل:یٰا یُّھَاالْمُزَمّل ترجمۂ کنزالایمان: اے جھڑمٹ مارنے والے۔(پارہ 29،سورۂ المزمل، آیت نمبر 1)یعنی اپنے کپڑوں سے لپٹنے والے، اس کے شانِ نزول میں کئی قول ہیں۔بعض مفسرین نے کہا:ابتداء زمانہ وحی میں سیّد عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم خوف سے اپنے کپڑوں میں لپٹ جاتے تھے، اسی حالت میں آپ کو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کویاایھالمزمل کہہ کرنداء کی۔ایک قول یہ ہے کہ سید عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم چادر شریف میں لپٹے ہوئے آرام فرما رہے تھے، اس حالت میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ندا کی گئی یآیھا المزمل۔ بہرحال یہ نداء بتاتی ہے کہ محبوب کی ہر ادا پیاری ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے معنی ہیں :نبوت و چادرِ رسالت کے حامل ولائق۔