اللہ پاک نے اپنے حبیبِ لبیب، محمد مجتبیٰ و مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو قرآنِ کریم میں چند خصوصی صفاتِ جلیلہ والقابِ جمیلہ سے ہی مخاطب فرمایا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:قرآنِ عظیم کا محاورہ ہے کہ تمام انبیائے کرام کو نام لے کر پکارتا ہے، مگر جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے خطاب فرمایا ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک اوصافِ جلیلہ و القابِ جمیلہ سے یاد کیا ہے، چنانچہ کہیں ارشاد فرمایا:یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ َاَرْسَلْنٰك(احزاب:45)اے نبی ہم نے تمہیں رسول کیا۔کہیں ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ (مائدہ: 47)اے رسول پہنچا جو تیری طرف اترا۔یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ ۙ قُمِ الَّیْلَ ( مزمل:1،2)اے کپڑےاوڑھے لیٹنے والے،رات میں قیام فرما۔کہیں ارشاد فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ ۙ۔قُمْ فَاَنْذِرْ۔اے جھڑمٹ مارنے والے، کھڑا ہو، لوگوں کوڈر سنا۔کہیں ارشاد فرمایا:یٰسٓۚ وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ ( یس:1۔3)اے یٰسین!یا اے سردار!مجھے قسم ہے حکمت والے قرآن کی، بیشک تو مرسلوں سے ہو۔کہیں ارشاد فرمایا:طٰهٰ ۚ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ۔(طہ:1،2)اے طہٰ! یا اے پاکیزہ رہنما!ہم نے تجھ پر قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ تم مشقت میں پڑو۔کہیں ارشاد فرمایا:یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ (احزاب:45)اے نبی بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔کہیں ارشاد فرمایا:وَدَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا (احزاب: 46) اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا او ر چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔ اسی طرح قرآنِ کریم میں آپ کا ذاتی نام محمد چار مقامات پر آیا ہے۔1۔وَمَامُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ (ال عمران:144)اور محمد تو ایک رسول ہی ہیں۔مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ (احزاب:40)محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں۔وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ (محمد:2) اورجو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے اور اس پر ایمان لائے جو محمد پر اتارا گیا۔مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ؕ (فتح:48)محمد اللہ کے رسول ہیں۔کہیں ارشاد فرمایا:ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین۔ (احزاب:33)لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔تو کہیں ارشاد فرمایا:لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ (توبہ: 128)بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان رحمت فرمانے والے۔تفسیر روح البیان میں ا کابر بزرگانِ دین کے حوالے سے مذکور ہے کہ سرورِ دوعالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو تمام جہانوں کے لئے خواہ عالمِ ارواح ہو یا عالمِ اجسام، ذوی العقول ہو یا غیرِ ذوی العقول سب کے لئے مطلق، تام، کامل، عام اور جامع رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے اور جو تمام عالموں کے لئے رحمت ہو تو لازم ہے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہو۔(روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: 528/5) معلوم ہوا! حضور پُر نور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم دونوں جہاں کی سعادتیں حاصل ہونے کا ذریعہ ہیں،کیونکہ جو شخص دنیا میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ایمان لائے، آپ کی اطاعت و پیروی کرے ، اسے دونوں جہاں میں آپ کی رحمت سے حصّہ ملے گا اور دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرے گا ۔