یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ:اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ وحی نازل ہونے کے ابتدائی زمانے میں سیّد المرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم خوف سے اپنے کپڑوں میں لپٹ جاتے تھے،ایسی حالت میں حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کو یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ کہہ کرندا کی۔دوسرا قول یہ ہے کہ ایک مرتبہ تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمچادر شریف میں لپٹے ہوئے آرام فرما رہے تھے، اسی حالت میں آپ کوندا کی گئی یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ۔(تفسیرخازن، المزمل،تحت الآیۃ:1،4/325-تفسیر ابوسعود، المزمل، تحت الآیۃ:1،5/782،783)یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ:حضرت جابر رَضِیَ اللہُ عنہ سے مروی ہے، سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:میں پہاڑِ حرا پر تھا کہ مجھے نداکی گئی :یا محمد انک رسول اللہ۔میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو کچھ نہ پایا اور جب اُوپر دیکھا تو ایک شخص(یعنی وہی فرشتہ جس نے ندا کی تھی) آسمان اور زمین کے درمیان بیٹھا ہے،یہ دیکھ کر مجھ پر رُعب طاری ہوا اور میں حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ عنہا کے پاس آیا اور میں نے انہیں کہا:مجھے چادر اڑھاؤ،تو انہوں نے چادر اڑھا دی۔اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا: یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ اے چادر اوڑھنے والے۔(تفسیرمدارک، المدثر، تحت الآیۃ:1،ص 1297)شَاھِدًا:شاھد کا ایک معنی ہے:حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہیں گواہ۔اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے شاھد کا ترجمہ حاضر ناظرفرمایا ہے۔(تفسیرخزائن العرفان، الاحزاب،تحت الآیۃ:45،ص 784)دَاعِیاً اِلَی اللہِ بِاِذْنِہٖ:آیت میں حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے ایک وصف کا بیان ہے کہ اےحبیب! آپ کو اللہ پاک کے حکم سے لوگوں کو اللہ پاک کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔(تفسیرروح البیان،الاحزاب،تحت الآیۃ:46/197-تفسیرجلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ:46، ص 355، ملتقطاً)5اور6۔مُبَشِّرًا وَّنَذِیْرًا:یہاں سید المرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے دوا صاف بیان کئے گئے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو ایمان داروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔(تفسیرمدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ:45،ص944)سِرَاجاً مُّنِیْرًا:یہاں سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا یہ وصف بیان کیا گیا ہے کہ اللہ پاک نے آپ کو چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔اس بارے میں صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:سراج کا ترجمہ آفتاب قرآنِ کریم کے بالکل مطابق ہے کہ اس میں آفتاب کو سراج فرمایا گیا ہے۔(تفسیرخزائن العرفان، الاحزاب،تحت الآیۃ:46،ص784) خَاتَمُ النَّبِیّٖنَ:یعنی محمد مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمآخری نبی ہیں کہ اب آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور نبوت آپ پر ختم ہو گئی ہے اور آپ کی نبوت کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی، حتٰی کہ جب حضرت عیسٰی علیہ الصلوۃ و السلام نازل ہوں گے تو اگرچہ نبوت پہلے پاچکے ہیں،مگر نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے اور اس شریعت پر حکم کریں گے اور آپ ہی کے قبلہ یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں گے۔(تفسیرخازن،الاحزاب،تحت الآیۃ:3،45/503) یٰسٓ:یہ حروفِ مقطعات میں سے ایک حرف ہے، اس کی مراد اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے،نیز اس کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ سیّدالمرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے اسمائے مبارکہ میں سے ایک اسم ہے۔ابو محمد مکی رحمۃ اللہ علیہحضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے روایت کرتے ہیں:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:خدا کی بارگاہ میں میرے دس نام ہیں،ان میں طٰہٰ اور یٰسٓ بھی ہیں۔ (دلائل النبوۃ لابی نعیم،ص61، مصنف ابن ابی شیبہ،11/457)10۔طٰہٰ:طٰہٰ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے ناموں سے ایک نام ہے اور بعض نے کہا:یہ اللہ پاک کا اسم ہے اور بعض نے اس کے معنی یَارَجُلُ(اے مرد)اور یاانسان کہے ہیں اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ حروفِ مقطعات ہیں، جو چند معنی میں ہیں، چنانچہ واسطی کہتے ہیں: اس سے مراد یَاطَاہِرُ، یَاہَادِیُ ہے۔