روزِ قیامت اُس
دن کو زمین و آسمان، جن وانس و ملک سب فنا
ہو جائیں گے، ایک واجبُ الوجود یعنی اللہ پاک کی
ذات باقی رہے گی، جس کے لئے ہمیشگی اور
بقا ہے اور یہ عقائدِ اسلامیہ میں سے ایک عقیدہ ہے، جس پر یقین لازمی ہے، دنیا کے فنا ہونے اور قیامت آنے سے پہلے کچھ
نشانیاں ظاہر ہوں گی، جن میں سے کچھ یہ
ہیں:1۔مال کی کثرت ہوگی۔2۔وقت میں برکت نہ رہے گی۔3۔لوگوں پر زکوۃ دینا تاوان کے
برابر ہو جائے گا۔4۔علم حاصل کیا جائے گا، لیکن دنیا کے لئے نہ کہ دین کے لئے۔5۔خاوند اپنی بیوی کا مطیع ہو گا اور
ماں باپ کا نافرمان ہو گا۔6۔دوست احباب سے گہرے تعلقات ہوں اور ماں باپ سے
جدائی۔حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں
نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا: قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھا
لیا جائے گا اور جہالت بڑھ جائے گی اور زنا شراب خواری بڑھ جائے گی اور مرد کم ہو
جائیں گے اور عورتیں زیادہ ہو جائیں گی، حتی کہ 50 عورتیں، ایک مرد منتظم
ہوگا، ایک روایت میں ہے : علم گھٹ جائے گا اور جہالت ظاہر ہو جائے گی۔(علامات قیامت، صفحہ 190، مرآۃ، جلد ہفتم، مشکوۃ5431، حدیث 1) علم سے مراد:علم سے مرادعلم دین ہے، جہل سے مراد دینِ
علم سے غفلت، آج یہ علامت شروع ہوچکی ہے، دنیاوی علوم بہت ترقی پر ہیں، مگر علومِ تفسیر،
حدیث، فقہ بہت کم رہ گئے ہیں،علما اٹھتے جا رہے ہیں،ان کے جانشین پیدا نہیں
ہوتے، مسلمانوں نے علمِ دین سیکھنا تقریباً
چھوڑ دیا،بہت سے علماء واعظ بن کر اپنا علم کھو بیٹھے،یہ سب کچھ قیامت کی
نشانی کا ظہور ہے۔زنا کی زیادتی کے اسباب:
عورتوں کی بے پردگی،اسکولوں، کالجوں میں لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم اور
سینما وغیرہ کی بے حیائیاں، گانے، ناچنے کی زیادتیاں، یہ سب آج موجود ہیں، ان وجوہات کی بنا پر زنا بڑھ رہا ہے اور بھی
زیادہ بڑھے گا، اسی طرح بعض ممالک کے بعض
علاقوں میں دیکھا جاتا ہے کہ بغیر شراب کے کوئی کھانا نہیں ہوتا، ہوٹل میں کھانا مانگو تو شراب ساتھ آتی ہے۔حدیث
میں ہے: لڑکیاں زیادہ پیدا ہوں گی اور
لڑکے کم، پھرلڑکے جنگوں میں مارے جائیں
گے، اپنی بیوی بچے چھوڑ جائیں گے، ان وجوہ سے عورتوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔حدیث میں ہے: پچاس عورتیں، اس کا مطلب یہ
نہیں ہے کہ ایک خاوند کی پچاس بیویاں ہوں گی کہ یہ تو حرام ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایک خاندان میں عورتیں
بیٹیاں پچاس ہوں گی، ماں، دادی، خالہ،
پھوپھی وغیرہ اور ان کا منتظم ایک مرد ہوگا۔دوسری حدیث میں ہے: قربِ قیامت میں
سنگِ اَسود اور مقامِ ابراہیم اُٹھا لیا جائے گا، قیامت کے قریب دنیا میں اللہ اللہ کہنے والا کوئی نہ ہوگا۔حضرت جابر بن سمرہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں
نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا :قیامت سے پہلے جھوٹے ہوں گے، تم ان سے
پرہیز کرنا۔حدیث میں جھوٹوں سے مراد جھوٹی حدیثیں گھڑنے والے یا جھوٹے مسئلے بیان
کرنے والے یا جھوٹے عقیدے ایجاد کرنے
والے، انہیں سلف صالحین سے نسبت کرنے والے یا جھوٹے دعویٰ نبوت کرنے والے ہیں۔ جھوٹے علما، جھوٹے محدثین، جھوٹے عقیدے والوں سے بچنا ایسا ہی ضروری
ہے، جیسے جھوٹے نبیوں سے بچنا لازم ہے۔