موجودہ دور میں پائی جانے
والی 5قیامت کی نشانیاں از بنتِ منظور حسین،سیالکوٹ
قیامت بَرحق اور
اِسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے، بے شک وہ اپنے مقررہ وقت پر آئےگی اور ضرور آئے
گی، جو شخص قیامت کا انکار کرے یا اس میں
شک کرے، وہ کافر اور خارج اَز اسلام ہے، اللہ پاک نے
اپنے بندوں کو ان کے اچھے، بُرے اعمال
کی سزاوجزا دینے کے لئے ایک خاص دن مقرر
فرمایا ہے، عُرفِ شرع میں اسی دن کا نام
قیامت ہے ۔یہ بات معلوم ہے کہ قیامت اچانک تو آئے گی، لیکن قیامت کے آنے سے پہلے بہت سی علامات و
آثارِقیامت کا ظہور ہو گا، کئی علامات
گزشتہ زمانوں میں گزر چکیں،بہت سی علامتیں آئندہ زمانہ میں ہوں گی اور بہت سی
علامات ِ قیامت دورِ حاضرمیں پائی جا رہی ہیں، جن میں سے پانچ یہ ہیں:(ما خوزآثار
قیامت رسالہ، ناشر جمعیت اھلسنت اشاعت پاکستان)1۔فرمانِ مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:عنقریب میری امت پر ایک
زمانہ ایسا آئیگا کہ وہ پانچ سے محبت رکھیں گے اور پانچ کو بھول جائیں گے:٭ دنیا
سے محبت رکھیں گے اور آخرت کو بھول جائیں گے ۔٭مال سے محبت رکھیں گے اور حساب کو
بھول جائیں گے۔ ٭ مخلوق سے محبت رکھیں گے اور خالق کو بھول جائیں گے۔٭محلات سے محبت رکھیں گے اور قبرستان کو بھول جائیں
گے۔ 2۔حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے آخری نبی صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: لوگوں پر ایسا
زمانہ آئے گا کہ آدمی کو اس بات کی کوئی پروا نہ ہوگی کہ اس نے مال کہاں سے حاصل
کیا، حرام ہے یا حلال ہے۔3۔رحمتِ
عالم، نور مجسم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: لوگوں پر
ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ان میں اپنے دین پر صبر کرنے والا انگارہ پکڑنے والے کی
طرح ہو گا۔4۔ سیدِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت قائم نہ ہو گی، یہاں تک کہ زہد
روایتی اور تقویٰ بناوٹی طور پر رہ جائے گا ۔5۔سرکارِمدینہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :ایک زمانہ ایسا
آئے گا کہ مساجد میں دنیا کی باتیں ہوں گی، پس تم ان کے ساتھ نہ بیٹھو کہ اللہ پاک کو ان سے کچھ کام نہیں۔(ماخوزاز رسالہ ایک
زمانہ ایسا آئے گا، صفحہ 3،7،9،28،36)اے دورِ حاضر کے
مسلمانو! کیا آج ایسا نہیں ہے؟ آج دنیا سے محبت عام ہے، حلال و حرام کی پروا کئے بغیر مال کمانے کی
دُھن سوار ہے۔العیاذ باللہ ۔الغرض ! دورِ حاضر قیامت کی نشانیوں سے لبریز ہے، ہر نیا دن نئی علامتِ قیامت اور نِت نئے فتنے
سے نمو دار ہوتا ہے، یہ کتنی بڑی ستم
ظریفی ہے کہ جس اُمّت کے حقیقی خیر خواہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی حیاتِ ظاہری میں دورِ فتن کی ہولناکیوں کے بارے میں فکر
مند رہا کرتے تھے، آج انہی کی اُمّت کے
افراد ان فتنوں میں پڑ کر اپنے ہی ہاتھوں دین و انجامِ آخرت کو بُھلا کر باہمی
محبت و شرافت اور احکامِ اسلام کا قتلِ عام کر رہے ہیں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں فکرِ آخرت نصیب فرمائے،قبر و قیامت
سےآشنائی سے قبل ہمیں اچھے اعمال کر کے جنت کمانے توفیق مرحمت فرمائے۔اٰمین بجاہ
النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم(ماخوزازرسالہ ایک
زمانہ ایسا آئے گا، صفحہ4)