محمد
طلحٰہ خان عطاری (درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ
فیضان خلفائے راشدین ،راولپنڈی،پاکستان)
اللہ پاک اپنے محبوب بندوں
کی حَسین اداؤں کو اتنا پسند فرماتا ہے کہ اسے اپنے بندوں پر فرض فرما دیتاہے۔
جیسا کہ حضرت سیدنا آدم صفی اللہ علیہ السلام نے صبح ہونے کی خوشی میں دو رکعتیں
ادا کیں تو یہ نماز فجر ہوگئی۔(ردالمحتار،2/16)
جب حضرت آدم علیہ السلام اس دنیا میں تشریف لائے تو
تاریکی(اندھیرا)تھا۔ پھر صبح آئی تو آپ خوش ہوئے اور شکرانے کے طور پر دو رکعتیں
ادا کیں جو کہ نماز فجر ہوگئی۔
نماز فجر کے متعلق کئی فرامینِ مصطفی صلی
اللہ علیہ وسلم ہیں جن میں سے 5 ذکر کئے جاتے ہیں:
(1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”فجر کی نماز حاضری کا وقت ہے، فرمایا
اس میں رات اور دن کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں“۔(مشکوٰةالمصابیح، ج:1، الحدیث :585)
(2)حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں :جو صبح
کی نماز پڑھتا ہے، شام تک اللہ پاک کے ذِمّے میں ہے۔ (معجم کبیر ،12/240، حدیث:
1321)
(3) حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا :”جو صبح نماز کو گیا، ایمان کے جھنڈے کے ساتھ گیا اور جو صبح
بازار کو گیا، ابلیس کے جھنڈے کے ساتھ گیا“۔(سنن ابن ماجہ، 3/53،الحدیث :2234)
(4) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس نے چالیس دن نماز فجر اور عشاء با
جماعت پڑھی، اس کو اللہ پاک دو برأتیں عطا فرمائے گا،ایک نار سے دوسری نفاق
سے“۔(تاریخ بغداد،11/374، حدیث :6231)
(5)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” منافق پر فجر اور عشا سے زیادہ کوئی نماز
بھاری نہیں اور اگر جانتے کہ ان دونوں میں کیا ثواب ہے تو گھسٹ کر بھی ان میں
پہنچتے“۔(مشکوٰة المصابیح، ج:1، الحدیث :580)
اللہ پاک ہمیں پانچ وقت کی
نماز باجماعت تکبیر اولی کےساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین