نماز ایک اعلیٰ عبادت ہے جو کہ اُمَّت محمدیہ کے لیے ان کے رب کریم کی طرف سے تحفہ ہے۔اس کے بارے میں سوال بھی کیا جائے گا۔ نمازِ فجر و عصر دیگر نمازوں کے مقابلے زیادہ اعظم ہے۔علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: پانچوں نمازوں میں سب سے افضل نمازِ عصر ہے ،پھر نمازِ فجر،پھر نمازِ عشا، پھر مغرب اور پھر ظہر۔مزید فرماتے ہیں:فجر اور عشا اس لیے فضیلت والی ہیں کہ ان میں مشقت زیادہ ہے۔نمازِ فجر کی اہمیت کا اندازہ تابعی بزرگ امام فقیہ ابو اللیث سمر قندی رحمۃُ اللہِ علیہ کے اس قول سے لگایا جاسکتا ہے۔آپ رحمۃُ اللہِ علیہ حضرت کعب رَضِیَ اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:میں نے توریت کے کسی مقام میں پڑھا (اللہ پاک فرماتا ہے):فجر کی دو رکعتیں احمد اور اس کی اُمَّت ادا کرے گی،جو انہیں پڑھے گا اس دن رات کے سارے گناہ اس کے بخش دوں گا اور وہ میرے ذمے میں ہوگا۔ (نیکی کی دعوت/ 86)نمازِ فجر کی اہمیت اس قول سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ پاک خود فرماتا ہے کہ اس شخص کے دن اور رات کے گناہ بخش دیے جائے گے جو نمازِ فجر کی دو رکعتیں پڑھے گا۔احادیث میں بھی فجر کی نماز کے فضائل بارے کیے گئے ہیں۔1:حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:رات اور دن کے فرشتے تمہارے پاس باری باری آتے ہیں اور صبح اور عصر کی نماز میں ان کا اجتماع ہوتا ہے،پھر یہ ڈیوٹی کے اعتبار سے اوپر چلے جاتے ہیں،پھر انکا رب ان سے دریافت کرتا ہے حالانکہ وہ ان سے زیادہ جاننے والا ہے کہ ”تم میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑ کر آئے ہو؟ “ فرشتے عرض کرتے ہیں :ہم جب ان کے پاس گئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے ۔(شرح مسلم،کتاب المساجد ح 1331) حدیث سے حاصل ہونے والے مدنی پھول: اس حدیث میں صبح کی نماز سے مراد نمازِ فجر ہے۔اس حدیثِ مبارکہ میں ان دونوں اوقات کے شرف یعنی عظمت و بزرگی کی طرف اشارہ ہے کیو نکہ فجر کی نماز کے بعد رزق تقسیم ہوتا ہے جبکہ دن کے آخری حصے یعنی عصر کے وقت میں اعمال اٹھائے جاتے ہیں،تو جو شخص ان دونوں وقتوں میں مصروف عبادت ہوتا ہے اس کے رزق وعمل میں برکت دی جاتی ہے۔ (فیضانِ نماز،ص99)2: رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:باجماعت نماز کو تمہار ے تنہا کی نماز پر پچیس درجے فضلیت حاصل ہے اور فجر کی نماز میں رات اور دن کے فرشتے جمع ہوتے ہیں۔(تفسیرصراط الجنان،سورۂ بنی اسرائیل،آیت 78) 3:حضرت انس رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے 40 دن فجر وعشا باجماعت پڑھی اس کو اللہ پاک 2 آزادیاں عطا فرمائے گا:ایک نارسے اور دوسری نفاق سے۔(فیضانِ نماز،ص 97)اس حدیثِ پاک میں کھلے الفاظ سے نمازِ فجر و عشا کو باجماعت ادا کرنے کی فضلیت بیان کی گی ہے کہ وہ جہنم اور منافقت سے آزاد کر دیا جائے گا۔

پڑھتی رہو نماز کے جنت میں جاؤ گی ہوگا وہ تم پر فضل کہ دیکھے ہی جاؤ گی

4:حضرت انس رَضِیَ اللہ عنہ سے مروی ہے: سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نمازِ فجر کے بارے میں فرمایا:جس نے اچھی طرح وضو کیا،پھر اس مسجد کی جانب چلا جس میں نماز پڑھی جاتی ہے تو ہر قدم کے بدلے اسے ایک نیکی ملتی ہے اور ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے،جبکہ نیکی کا اجر دس گنا ہوتا ہے اور جب وہ نماز ادا کرکے طلوعِ آفتاب کے وقت واپس لوٹتا ہے تو اس کے جسم پر موجود ہر ہر بال کے عوض ایک نیکی لکھی جاتی ہےاور وہ ایک مبرو حج کا ثواب پاکر لوٹتا ہے۔(قوت القلوب/ 182)اس حدیث کے اس حصہ نماز ادا کرکے طلوع آفتاب کے وقت لوٹتا ہے سے معلوم ہوا کہ نمازِ فجر ادا کرنے والے کے لیے نہ صرف ہر ہر بال کے بدلے نیکیاں ملتی ہے بلکہ وہ ایک مقبول حج کا ثواب بھی پالیتا ہے۔5:حضرت عثمان ِغنی رَضِیَ اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول ِکریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو نمازِ عشا جماعت سے پڑھے گویا اس نے آدھی رات قیام کیا اور جو فجر جماعت سے پڑھے گویا اس نے پوری رات قیام کیا۔مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے اس حدیثِ مبارکہ کے جو معنی بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عشا کی جماعت کا ثواب آدھی رات کے برابر اور فجر کی جماعت کا ثواب ساری رات عبادت کے برابر ہے۔ (فیضانِ نماز، ص 94)اس کی وجہ یہ ہے کہ عشاکی نسبت فجر کی جماعت نفس پر زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ہر مومن مرد و عورت پر کامیاب زندگی جینے اور آخرت میں کامران و با مراد ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی نمازوں کی اصلاح کی ہر وقت فکر کریں اور اس عبادت کو ایسے ہی ادا کرنے کی کوشش کریں جیسے حضورِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمیں سکھا گئے تا کہ ہر کوئی زندگی کے اکثر اوقات میں ادا کی جانے والی اس عبادت کے ذریعے دنیوی،دینی،ظاہری اور باطنی منافع حاصل کر سکے اور اللہ باری کی رضاو خوشنودی کے ذریعے آخرت میں بھی سرخرو ہو جائیں۔نماز دلوں کا نور ہے۔ اگر بات کریں نمازِ فجر کی تو اس کے بے شمار فوائد ہیں۔ نمازِ فجر پر 5 فرامینِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:1:اللہ پاک کے ذمے:صبح کی نماز اس رب کریم کے حضور اعتراف عجز اور اقرار شکر کا وہ مؤدب،موقر اور مکتوب ذریعہ ہے جسے ادا کرکے انسان اپنے آپ کو اللہ پاک کی ضمانت میں دے دیتا ہے۔جیسا کے فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:جس نے صبح کی نماز ادا کی وہ اللہ پاک کی ضمانت میں ہے۔اے بنی آدم!غور کر اللہ پاک اپنی ضمانت کے بدلے تجھ سے کوئی چیز طلب نہیں فرماتا۔(مسلم کتاب المساجد:287ریاض الصالحین،ح:1049)2: شیطان سے دوری:نمازِ فجر کی ادائیگی انسان کو دن بھر شیطان سے دور رکھتی ہے۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جب کوئی سوتا ہے تو شیطان اس کے سر پر تین گرہیں باندھتا ہے۔ہر گرہ پر یہ دم کرتا ہے کہ بڑی لمبی رات ہے سو یارہ ۔اب اگر وہ بیدار ہو جاتا ہے اور اللہ پاک کا نام لیتا ہے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے پھر جب وہ وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے صبح کے وقت وہ آدمی خوش باش اور تازہ دم ہو جاتا ہے ورنہ بدمزاج اور سست رہتا ہے۔(صحیح بخاری،کتاب التہجد)3 : جنت میں داخلہ:حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے ٹھنڈے وقت کی دو نمازیں(فجر اور عصر)پڑھیں تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔(صحیح البخاری،:1،ح:574)4.نمازِ فجر ہر چیز سے بہتر:حدیثِ مبارکہ میں ہے: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں :اگر لوگ جان لیں کہ فجر اور عشا کی نماز کی کتنی فضیلت ہے تو وہ اس میں ضرور شریک ہوں اگر چہ انہیں گھٹنوں کے بل گھسیٹ کر آنا پڑے۔(کتاب البخاری)ایک اور جگہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے :فجر کی دو رکعت سنت اور جو کچھ اس دنیا میں ہے،ان سب سے بہتر ہے۔(مسلم:1721) 5.قیامت کے دن نور اور روشنی کا سبب:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:رات کی تاریکیوں میں مساجد کی طرف کثرت سے جانے والوں کو قیامت کے دن کامل نور کی خوشخبری سنا دو۔(سنن ابی داؤد،ح:561)نمازِ فجر قضا کرکے کامیاب صبح کی امید رکھنا نادانی ہے۔اگر آپ نمازِ فجر کے لئے بیدار نہیں ہوتیں تو اپنے نفس کا محاسبہ کیجیے اور اس کی اصلاح کیجئے۔نمازِ فجر کے لئے اللہ پاک اپنے خاص بندوں کو بیدار فرماتا ہے کیونکہ نمازِ فجر منافقین پہ گراں گزرتی ہے۔اللہ پاک ہمیں تمام فرض نمازیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین