نمازِ فجر پر 5 فرامینِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم از بنتِ محمد صدیق،سیالکوٹ
اسلام
میں سب سے پہلے نماز فرض ہوئی،یعنی نبوت کے گیارہویں سال ہجرت سے دو سال
کچھ ماہ پہلے، نیز ساری عبادتیں اللہ پاک نے فرش پر بھیجیں،مگر نماز اپنے محبوب کو
عرش پر بُلا کر دی،اس لئے کلمہ شہادت کے بعد سب سے بڑی عبادت نماز ہے،جو نماز
سیدھی کرکے پڑھے تو نماز اسے بھی سیدھا کردیتی ہے۔اس طرح کہ نماز ہمیشہ پڑھے،دل
لگا کر اخلاص کے ساتھ ادا کیا کرے، یہی
معنی ہیں نماز قائم کرنے کے، جس کا حکم
قرآنِ کریم میں ہے:وَاَقِیْمُوْا الصَّلٰوةَ اور نماز قائم کرو۔قیامت میں قبر
بھی داخل ہے،کیونکہ موت بھی قیامت ہی ہے،مطلب یہ ہے کہ نماز قبر میں اور پل صراط پر روشنی ہوگی کہ سجدہ گاہ تیز بیٹری کی طرح
چمکے گی اور نماز اس کے مؤمن ہونے کی دلیل ہوگی،نماز کے ذریعہ سے ہر جگہ سے نجات
ملے گی،کیوں کہ قیامت میں پہلا سوال نماز کا ہوگا،اس میں بندہ کامیاب ہوگیا تو ان
شاءاللہ آگے بھی کامیاب ہوگا۔آیتِ مبارکہ:وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِکْرِیْ
ترجمہ:اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھو۔(پ
16،سورۃ طٰہٰ: نمبر 14) حدیثِ مبارکہ:طبرانی ابنِ عمر رَضِیَ
اللہ عنہما
سے راوی کہ حضور صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: جو صبح کی
نماز(یعنی
فجر کی نماز)
پڑھتا ہے،وہ شام تک اللہ پاک کے ذمے میں ہے،دوسری روایت میں ہے: تم اللہ
پاک کا ذمہ نہ توڑو،جو اللہ پاک کا
ذمہ توڑے گا،اللہ پاک اسے اوندھا کرکے
جہنم میں ڈال دے گا۔2۔حدیثِ مبارکہ:ابنِ
ماجہ سلمان فارسی رَضِیَ اللہ عنہ
سے راوی ہیں:رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم
نے فرمایا:جو صبح یعنی فجر کی نماز کو گیا،وہ ایمان کے جھنڈے کے ساتھ گیا اور جو صبح بازار کو گیا،ابلیس کے جھنڈے کے
ساتھ گیا۔وضاحت:ہر مکلف یعنی عاقل بالغ پر
نماز فرضِ عین ہے، اس کی فرضیت کا منکر کافر ہے اور جو قصداً چھوڑے،اگرچہ ایک ہی وقت کی،وہ فاسق ہے اور بچہ
جب سات برس کا ہو تو اسے نماز پڑھنا سکھایا جائے اور جب دس برس کا ہو جائے تو مار
کر پڑھوانا چاہئے اور فجر کا وقت طلوعِ صبحِ صادق سے آفتاب کی کرن چمکنے تک
ہے۔صبحِ صادق ایک روشنی ہے کہ یورپ یعنی مشرق کی جانب جہاں سے آج آفتاب طلوع ہونے والا ہے،اس کے اوپر آسمان کے کنارے میں
دکھائی دیتی ہے اور بڑھتی جاتی ہے،یہاں تک کہ تمام آسمان پر پھیل جاتی ہے اور زمین پر
اُجالا ہو جاتا ہے اور اس سے قبل بیچ
آسمان میں ایک دراز سپیدی ظاہر ہوتی ہے،جس کے نیچے سارا اُفق سیاہ ہوتا ہے/صبحِ صادق اس کے نیچے سے پھوٹ کر
جنوباً شمالاً دونوں پہلوؤں پر پھیل کر اُوپر بڑھتی ہے،یہ دراز سپیدی اس میں غائب
ہو جاتی ہے،اس کو صبحِ کاذب کہتے ہیں۔ اس
سے فجر کا وقت نہیں ہوتا ہے،جو بعض نے لکھا ہے کہ صبحِ کاذب کی سپیدی جاکر بعد کو تاریکی ہو جاتی ہے،محض غلط ہے/صحیح وہ ہے جو
ہم نے بیان کیا۔(بہار شریعت،حصہ اول/ نمبر 44)
3:حدیثِ مبارکہ:ترمذی رافع بن خدیج رَضِیَ
اللہُ عنہ
سے راوی ہیں:رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم
نے ارشاد فرمایا:فجر کی نماز اُجالے میں پڑھو کہ اس میں بہت عظیم ثواب ہے۔وضاحت:نمازِ فجر میں صبحِ صادق کی
سپیدی چمک کر ذرا پھیلنی شروع ہو،اس کا اعتبار کیا جائے اور عشا اور سحری کھانے میں اس کے ابتدائے طلوع کا اعتبار ہو،جب رات 14 گھنٹے کی ہوتی ہے،اس
وقت فجر کا وقت نواں حصّہ،بلکہ اس سے بھی کم ہوجاتا ہے،ابتدائے وقت فجر کی شناخت
دشوار ہے۔خصوصاً جبکہ گردوغبار ہو یا چاندنی رات ہو،لہٰذا ہمیشہ طلوعِ آفتاب کا
خیال رکھئے کہ آج جس وقت ہوا،دوسرے دن اسی حساب سے وقت اسی وقت کے اندر اندر اذان
و نماز ِفجر ادا کی جائے۔ 4:حدیثِ مبارکہ:دیلمی کی روایت انس رَضِیَ
اللہ عنہ
سے ہے کہ اس سے تمہاری مغفرت ہوجائے گی
اور دیلمی کی دوسری روایت انہی سے ہے کہ
جو فجر کو روشن کرکے پڑھے گا،اللہ پاک اس کی قبر اور قلب کو منور کرے گا اور اس کی
نماز قبول فرمائے گا۔(بہار شریعت،حصہ اول / نمبر 445 تا446)5:حدیثِ
مبارکہ:روایت ہے حضرت ابوہریرہ رَضِیَ
اللہُ عنہ سے،وہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے اس بارے میں راوی ہیں:فجر کی
نماز حاضری کا وقت ہے،فرمایا:اس میں دن اور رات کی نمازوں کے درمیان ہے نیز اس
وقت میں رات اور دن کے فرشتے حاضر ہوتے
ہیں۔ وضاحت: کیوں کہ یہ نماز دن اور رات
کی نمازوں کے درمیان میں اس وقت دن اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں۔وضاحت:کیونکہ یہ
نماز دن اور رات کی نمازوں کے درمیان ہے،نیز اس وقت دن اور رات کے فرشتے جمع ہوتے
ہیں،نیزاس وقت دنیوی کاروبار زیادہ زور پر
ہوتے ہیں،اس لئے اس کی زیادہ تاکید فرمائی
گئی،اکثر کا یہی قول ہے اور قرآنِ کریم میں فجر سے مراد نمازِ فجر ہے۔مشہود سے
مراد دن رات کے فرشتوں کی حاضری کا وقت،یعنی فجر کے وقت دو قسم کے فرشتے جمع ہوتے
ہیں،لہٰذا اس کی زیادہ پابندی کرو،معلوم ہوا کہ جس نماز میں اللہ پاک کے
مقبول ہوں، وہ نماز زیادہ مقبول ہے۔(مراۃ
المناجیح، اول/ نمبر 385)
پیارے
آقا کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے جنت
میں لے چلے گی جو بیشک نماز ہے
آخر
میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پانچ وقت کی نماز وقت پر،اخلاص کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم