صوم کے لغوی معنیٰ باز رہنا،قرآنِ کریم فرماتا ہے:اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا۔ (پ16،مریم:24) (مراۃ المناجیح،3/ 144) ترجمہ ٔ کنزالایمان:تو کہہ دینا میں نے آج رحمٰن کا روزہ مانا ہے۔

تطوع طوع سے بنا،بمعنی رغبت و خوشی۔ربّ کریم ارشاد فرماتا ہے:قَالَتَاۤ اَتَیْنَا طَآىٕعِیْنَ 24،حمٓ السجد ۃ:11) ترجمۂ کنزالایمان: ” دونوں نے عرض کی کہ ہم رغبت کے ساتھ حاضر ہوئے ۔ “نفل عبادات کو تطوع اس لئے کہا جاتا ہے کہ بندہ وہ کام اپنی خوشی سے کر تا ہے، ربّ کریم نے اس پر فرض نہیں کی۔(مراۃ المناجیح، 3/ 184)

شریعت میں صبح سے شام تک بہ نیتِ عبادت صحبت سے اور کسی چیز کے پیٹ یا دماغ میں داخل نہ کرنے کو صوم کہتے ہیں۔2 ہجری میں تبدیلیِ قبلہ کے ایک مہینا بعد ہجرت سے اٹھارویں مہینے دسویں شعبان کو روزے فرض ہوئے۔(مراۃ المناجیح،3/ 144)

فرض روزوں کے علاوہ نفل روزوں کی عادت بھی بنانی چاہئےکہ اس میں بےشمار دینی اور دنیوی فوائد ہیں۔دینی فوائد میں ایمان کی حفاظت،جہنم سے نجات اور جنت کا حصول شامل ہے،جہاں تک دنیوی فوائد کا تعلق ہے تو دن کے اندر کھانے پینے میں صَرف ہونے والے وَقت اور اَخراجات کی بچت، پیٹ کی اصلاح اور بہت سارے امراض سے حفاظت کا سامان ہے اور تمام فوائد کی اصل یہ ہے کہ روزے دار سے اللہ پاک راضی ہوتا ہے۔(فیضان رمضان، ص 325) اللہ پاک فرماتا ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اور روزے والے اور روزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد رکھنے والے اوریاد رکھنے والیاں ان سب کے لئے اللہ پاک نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔( پ 22، الاحزاب: 35)

روزے والے اور روزے والیاں کی تفسیر میں مولانا ابوالبرکات عبداللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:اس میں فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے داخل ہیں۔(فیضان رمضان، ص 326)

نفل روزوں کے فضائل احادیث کی روشنی میں

جس نے ایک نفل روزہ رکھا،اس کے لئے جنت میں ایک درخت لگا دیا جائے گا،جس کا پھل انار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا، وہ شہد جیسا میٹھا اور خوش ذائقہ ہوگا،اللہ پاک بروزِ قیامت روزے دار کو اس درخت کا پھل کھلائے گا۔( فیضان رمضان، ص 327)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! مجھے ایسا عمل بتائیے، جس کے سبب میں جنت میں داخل ہو جاؤں!فرمایا: روزے کو خود پر لازم کر لو، کیونکہ اس کی مثل کوئی عمل نہیں۔ راوی کہتے ہیں:حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے گھردن کے وقت مہمانوں کی آمد کے علاوہ کبھی دھواں نہ دیکھا گیا۔(یعنی دن کو آپ کھانا کھاتے ہی نہیں تھے، روزہ رکھتے تھے)(فیضان رمضان،ص 328)

حضرت اُمِّ عمارہ بنتِ کعب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لائے ، میں نے کھانا پیش کیا تو ارشاد فرمایا:تم بھی کھاؤ، میں نے عرض کی:میں روزے سے ہوں !تو فرمایا: جب تک روزہ دار کے سامنے کھانا کھایا جاتا ہے، فرشتے اس روزہ دار کے لئے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں۔(فیضان رمضان، ص 329)

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو اللہ پاک کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھے گا، تو اللہ پاک اسےآگ سےستر سال کی راہ دور رکھے گا۔(مراۃ المناجیح، 3/199)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص اللہ پاک کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھے گا، تو اللہ پاک اس کے اور آگ کےدرمیان ایسی خندق کر دے گا، جیسے آسمان اور زمین کے درمیان۔(مراۃ المناجیح، 3/ 204)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:جو رضائے الٰہی کی تلاش میں ایک دن کا روزہ رکھے تو اللہ پاک اسے دوزخ سے اتنا دور کردے گا ، جیسے اُڑنے والے کوّے کی دوری، جب وہ بچہ ہو حتی کہ بوڑھا ہو کر مر جائے۔(مراۃ المناجیح، 3/ 208)

اللہ پاک سے دعا ہے اللہ پاک ہمیں شب و روز اپنی عبادات میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے،فرض عبادات کیساتھ کیساتھ نفل عبادات بجا لانے کی توفیق مرحمت عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم