قرآن ِ کریم الله کی سچی کتاب ہے۔ یہ اللہ کا پیغام اپنے بندں کے نام ہے۔اس
سے ایمان بڑھتا اور دلوں کے زنگ دور ہوتے
ہیں۔ تلاوتِ قرآن کرنا باعث ِثواب اوربرکت
ہے۔اس میں سارے اولین و آخرین کے علوم کا
مجموعہ ہے۔ دین ودنیا کا کوئی ایسا علم نہیں جو اس پاک کلام میں نہ ہو۔ جیسے
بادشاہ کا کلام کلاموں کا بادشاہ ہے۔ اس کلامِ ربانی میں سارے علوم اور ساری حکمتیں
موجود ہیں۔جس میں سے ہر شخص اپنی لیاقت کے موافق حاصل کرتا ہے۔قرآن ِکریم میں
ارشادِ باری ہے:ترجمہ کنز الایمان: ہم نے اس کتاب میں کسی شے کی کمی نہیں چھوڑی۔
قرآنِ عظیم کے کثیر اسماء ہیں جو کہ اس کتاب کی
عظمت وشرف کی دلیل ہیں۔ ان میں سے چھ مشہور اسماء یہ ہیں: (1) قرآن(2)برہان (3)
فرقان (4 )کتاب (5)مصحف (6) نور۔
آئیے! اب قرآنِ
مجید، فرقانِ حمید کے 5 حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں پڑھیے۔
1-قرآن
ِکریم پر ایمان:
سب سے پہلا حق پاک کلام پر ایمان لانا۔یہاں یہ بات یاد رکھیے کہ الله پاک نے جتنی
بھی کتابیں نازل فرمائیں،جتنے بھی صحیفے انبیائے کرام علیہم السلام پر نازل فرمائے ان پر ایمان لانا لازم ہے۔اللہ
کی ایک بھی کتاب کا انکار کفر ہے۔قرآنِ کریم پر ایمان لانااوریقین رکھنا کہ یہ
اللہ پاک کی آخری کتاب ہے۔ یہ اللہ پاک کا
کلام ہے جو الله پاک نے اپنے آخری نبیﷺ پر نازل فرمائی۔یہ کلام اللہ وہ کتا ب ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے۔
اس میں جو کچھ ہے وہ حق اور سچ ہے۔
2-تلاوت
ِ قرآنِ کریم:
بد قسمتی سے ہم قرآن ِکریم کا یہ حق ادانہیں کرتے۔ بلکہ افسوس کہ ہم میں سے اکثر
کو قرآن پڑھنا بھی نہیں آتا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ حضور ﷺ اس
طرح تلاوت فرماتے تھے کہ ایک ایک حرف صاف صاف معلوم ہوتاتھا۔ (مقدمہ تفسیر نعیمی)
حضرت عثمانِ غنی رضی الله عنہ فرماتے ہیں:نبی کریم ﷺ نےارشاد فرمایا:تم میں
سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ (بخاری، 3/410،حدیث:5027)
ارشادِ باری
ہے: ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک ہم ان کے پاس ایک کتاب لائے جسے ہم نے ایک عظیم
علم کی بنا پر بڑی تفصیل سے بیان کیا وہ ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت
ہے۔(الاعراف:52)
قرآن ِکریم کا اصلی ماخذ اور سر
چشمۂ ہدایت الله پاک کا علم اور اس کی وحی ہے۔ قرآنِ کریم کے معنی و مفہوم کو
سمجھنا صاحبِ قرآن کی وضاحت کے بغیر نا ممکن ہے۔جیسے ایمان، اسلام، نفاق، شرک،
کفر۔ ان کے معنی و مفہوم کی تعیین کے لئے حضور پر نور ﷺ کی طرف رجوع کرنا بہر صورت لازمی ہے۔(تفسیر صراط الجنان،1/30)
3-محبت
و تعظیمِ قرآن:تیسرا
حق اس سے محبت کرنا اور دل سے اس کی تعظیم کرنا ہے۔الحمد للہ قرآنِ مجید سے محبت
کرنا سنتِ مصطفٰے ہے۔ہمارے پیارے مکی مدنی آقا ﷺ قرآنِ مجید سے بہت محبت فرماتے
تھے۔ ایک مرتبہ آپ اپنے گھر مبار ک میں تشریف فرماتھے، کسی نے بتایا کہ کوئی شخص
بہت خوبصورت آواز میں قرآن کی تلاوت کر ر ہا ہے۔ آپ ﷺ اُٹھے، باہر تشریف لے گئے اور
دیر تک تلاوت سنتے رہے، پھر واپس تشریف لائے اور فرمایا:یہ ابو حذیفہ کا غلام سالم
ہے۔تمام تعریفیں اللہ پاک کے لیے ہیں جس نے میری امت میں ایسا شخص پیدا فرمایا۔(ابن
ماجہ،ص216، حدیث: 1338)
قاضی عیاض
مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ نے شفا
شریف میں عشقِ مصطفٰے کی علامات کا شمار کیا
تو ان میں ایک علامت ”محبتِ قرآن“ لکھی کہ جو شخص قرآن سے محبت کرتا ہے وہی رسول ﷺ
سے محبت کرتا ہے۔
4-قرآن پر عمل کرنا: ایک حق
قرآنِ کریم کے بیان کردہ آدابِ زندگی
اپنانا اور اس کے بتائے ہوئے اخلاق کو اپنے کردار کا حصہ بنانا۔ وَ
هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ
تُرْحَمُوْنَۙ(۱۵۵) (پ 8، الانعام:155) ترجمہ کنزالایمان: یہ برکت والی کتاب ہم نے اتاری تو اس کی پیروی کرو اور پرہیزگاری
کرو کہ تم پر رحم ہو۔معلوم ہوا! قرآن کا اہم اور بنیادی حق اس پر عمل کرنا، اس کی
کامل اتباع کرنا اور اس کے بتائے ہوئے انداز پر زندگی گزارنا ہے۔قرآنِ مجید ہدایت
ہے۔بے شک اسے دیکھنا بھی عبادت ہے۔ اسے چھونا بھی عبادت ہے۔لیکن اس کے باوجود اگر
اس پر عمل نہ کیا جائے اس وقت تک کما حقہ ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی۔ آقا ﷺ نے
فرمایا:کتنے ہی قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ قرآن ان پرلعنت کرتا ہے۔ (المدخل،1/85)
5-قرآن
کو سمجھنا:ایک
حق قرآن کو سمجھنا بھی ہے۔حضور جان رحمت،شمعِ بزمِ ہدایت ﷺنے قرآنِ مجیدکے بے شمار
اوصاف بیان فرمائے ہیں اُن میں ایک یہ بیان فرمایا: قرآنِ مجید دلیل ہے، یہ یا تو
تمہارے حق میں دلیل بنے گا یا تمہارے خلاف دلیل ہوگا۔خلاف سے مراد علامہ قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جو شخص قرآن سیکھے
مگر اس سے غفلت کرے قرآن اس کے خلاف دلیل ہے۔ (تفسیر قرطبی،1/19 )
قرآنِ مجید کو سیکھنا بھی لازم ہے۔قرآنِ مجید سیکھنا
کیسے ہے؟ اسے سمجھنا کیسے ہے؟ اس پر عمل کیسے کرنا ہے ؟ ان سب سوالوں کا صرف ایک ہی
جواب ہے: عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوت ِاسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ
ہوجائیں۔الحمد للہ دعوتِ اسلامی ہمیں قرآن پڑھنا بھی سکھاتی ہے۔ سمجھنے کے ذرائع بھی
فراہم کرتی ہے۔ قرآن سمجھ کر اس پر عمل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے مطابق ترتیل
حرف کو تجو ید کے ساتھ پڑھنا اور وقفوں کی معرفت ہے۔تو ترتیل سے قرآن پڑھا جائے گا
تب ہی اس کی تلاوت کا حق ادا ہوگا، لیکن اگر تلاوت تجوید کی رعایت کے ساتھ نہیں
بلکہ اس کے خلاف ہے تو اس سےتلاوت کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔حدیث میں ہے:اچھی آواز
سے قرآن پڑھو کیونکہ اچھی آواز قرآن کے حسن کو بڑھا دیتی ہے۔ قرآن کو عربی لہجے میں پڑھو۔(شعب الایمان، حدیث:2521)
حضرت انس بن
مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: بہت سے لوگ قرآن کی تلاوت اس حالت میں کرتے ہیں کہ
قرآن ان پر لعنت کرتا ہے۔ یہ حدیث عام ہے۔ ذیل کی تین جماعتوں کو شامل ہے:
(1) وہ جو
حروف کو غلط پڑھیں(2) وہ جو قرآن پر عمل نہ کریں۔(3)وہ جو قرآن کی تفسیر و معنیٰ میں
رد و بدل کریں۔(احیا ءالعلوم، 1/284)
قرآنِ کریم کو
صحیح طریقے سے پڑھنے، اس کے معنیٰ و مفہوم کو یعنی آیاتِ مبارکہ کی تفسیر کے لیے
بہت ہی مفید کتاب ”صراط الجنان فی تفسیر القرآن“ کا مطالعہ کیجیے۔ روزانہ کی بنیاد
پر کم از کم تین آیات ترجمہ تفسیر کے ساتھ پڑھنے کا معمول بنا لیجیے۔ ان شاء الله
بہت کچھ سیکھنا اور اس کی برکتیں حاصل کرنا نصیب ہوگا۔ الله پاک ہمیں صیح معنوں میں
خشوع و خضوع کے ساتھ اور اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے، اس پر
عمل کرنے اوردوسروں تک اپنے رب کے پاک کلام کو پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین