حضرت یسع علیہ اسلام کا تذکیر ہ قرآن کریم میں صرف دو ہی مقام پر ہے۔ پہلا مقام وہ سورہ انعام میں ہے۔ دوسرا مقام وہ سورہ ص میں ہے۔  پہلا مقام وہ سورہ انعام ہے جس میں حضرت یسع علیہ السلام کا ذکر خیر ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمایا ہے۔

وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَترجمہ کنزالعرفان:اور اسماعیل اور یَسَع اور یونس اور لوط کو (ہدایت دی)اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی ۔ (پ 7 آیت 86 سورہ انعام )

آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضرت یسع علیہ سلام کو اللہ تعالٰی نے ہدایت و نبوت سے سرفراز فرمایا اور نبوت کے مرتبہ کے ذریعے اپنے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضلیت عطا فرمائی۔

دوسرا مقام وہ سورت مبارکہ جس میں حضرت یسع علیہ السلام کا ذکر خیر ہے وہ یہ ہے کہ ارشاد کی خداوندی ہے : وَ اذْكُرْ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ ذَا الْكِفْلِؕ-وَ كُلٌّ مِّنَ الْاَخْیَارِترجمہ کنزالعرفان:اور اسماعیل اور یسع اور ذو الکفل کو یاد کرو اورسب بہترین لوگ ہیں(پ 23 س ص آیت 48)

اللہ تعالی نے حضرت یسع علیہ السلام کو نبوت کے ساتھ تمام جہان والوں پر فضلیت بخشی۔ اور آپ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بہترین لوگوں میں شمار فرمایا کہ آپ علیہ السلا دن میں روزہ رکھتے اور رات میں کچھ دیر آرام فرماتے اور رات کا بقیہ حصہ اللہ تعالی کی یاد میں نوافل کی ادائیگی میں گزار دیتے تھے ۔ آپ علیہ اسلام نرم مزاج اور لوگوں پر غصہ کرنے والے نہ تھے۔ آپ علیہ السلام اپنی اُمت کے معاملات میں بڑی سنجیدگی سے فیصلہ فرماتے اور اُمت کے فیصلہ کرنے میں آپ علیہ السلام جلد بازی نہ فرماتے اسی بناء پر اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو بہترین لوگوں میں شمار فرمایا جیسکہ مذکورہ آیت مبارکہ میں ارشاد فرمایا کہ

اور اسماعیل اور یسع اور ذوالکفل کو یاد کرو وہ تمام بہترین لوگوں میں سے ہیں۔

آپ علیہ السلام بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ بھی تھے ۔ جب آپ علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا تو بنی اسرائیل کے کچھ بڑے آدمی مل کر آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : آپ بادشاہت میں کسی کو اپنا جانشین مقرر کر دیجئے تا کہ ہم اپنے معاملات میں اس کی طرف رجوع کر سکیں۔

آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: میں ملک کی باگ دوڑ اس کے حوالے کروں گا جو مجھے تین باتوں کی ضمانت دے۔ ایک نوجوان کے علاوہ کسی شخص نے بھی اس ذمہ داری کو قبول کرنے کی ضمانت دینے کے بارے میں آپ سے کوئی بات نہ کی۔ اس نوجوان نے عرض کی: میں ضمانت دیتا ہوں۔

ارشاد فرمایا تم بیٹھ جاؤ۔ اس سے مقصود یہ تھا کہ کوئی اور شخص بات کرے، لیکن آپ علیہ السلام کے دو بار کہنے پر وہی نوجوان ہی کھڑا ہوا اور اس نے ذمہ داری قبول کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: ٹھیک ہے، تم تین چیزوں کی ذمہ داری قبول کر لو،

1...تم سوئے بغیر ساری رات عبادت میں بسر کیا کرو گے۔

2...روزانہ دن میں روزے دار رھو گے اور کبھی روزہ ترک نہیں کرو گے

3...غصہ کی حالت میں کوئی فیصلہ نہیں کرو گے۔

اس نوجوان نے ان تینوں چیزوں کی ذمہ داری قبول کر لی تو آپ علیہ السلام نے بادشاہی کا نظام اس کے سپرد کر دیا (روح المعانی، الانبیاء، تحت الآیہ 85، 9/108 الجزء السابع عشر)

اللہ تعالی حضرت یسع علیہ السلام کی مزار پر انوار پر کروڑوں رحمتوں و برکتوں کا نزول فرمائے اور حضرت یسع علیہ السلام کے صدقے ہم سب کی اور ہمارے فوت شدگان کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النین صلی اللہ علیہ وسلم