آپ علیہ اسلام حضرت اسحاق علیہ اسلام کے بیٹے عیص کی نسل سے ہیں اور والدہ ماجدہ کا تعلق حضرت لوط علیہ اسلام کے خاندان سے ہے اللہ نے آپ کو ہر طرح کی نعمت سے نوازا تھا حسن صورت اور مال و اولاد کی کثرت باندی غلام،کھیت باغات اور وسیع و عریض زمین کے علاوہ کئی بیویوں اور کثیر اولاد سے نوازا تھا مال و دولت راحت و آرام اور صحت و تندرستی کے ان ایام میں بھی آپ علیہ اسلام تقوی و پرہیز گاری کے اعلیٰ درجے پر فائز ذکر الہی میں مشغول اور متوجہ الی اللہ رہے نعمتوں پر شکر الہی ادا کرتے رہے ۔

نام و نسب : آپ علیہ اسلام کا نامِ پاک " ایوب " ہے اورنسب نامہ سے متعلق مختلف اقوال ہیں جن میں ایک قول یہ بھی ہے ایوب بن اموص بن زارح بن عیص بن حضرت اسحاق علیہ اسلام بن حضرت ابراہیم علیہ اسلام۔ ( النبوة الانبیإ للصابونی، ایوب علیہ اسلام ص 276 )

حلیہ مبارک : آپ علیہ اسلام کے بال گھنگریالے، خوبصورت کشادہ آنکهيں، شکل و صورت بہت حسین، گردن چھوٹی سینہ چوڑا، پنڈلیاں اور کلائیاں مضبوط اور قد مبارک لمبا تھا ( روح المعانی الانبیإ تحت الاٰیة 83 ، 9/106 )

علماتفسیر و تاریخ فرماتے ہیں : حضرت ایوب علیہ اسلام کے پاس تمام انواع و اقسام کے کثیر اموال تھے جن میں باندی غلام، مویشی اور دیگر جانور اور ثنیہ سے لے کر حوران تک وسیع اراضی شامل ہے یونہی آپ علیہ اسلام کو کثیر اولاد بھی عطا ہوئی تھی ( قصص الانبیإ لا بن کثير ، قصة ایوب علیہ اسلام ، ص 336 )

آپ علیہ اسلام کے قرآنی اوصاف : آپ علیہ اسلام انتہائی عمدہ اوصاف کے مالک تھے جیسے مصائب و آلام پر بے حد صبر کرنے والے، بہت ہی اچھے بندے اور اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے اشاد باری تعالیٰ ہے۔ اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ (پارہ 23 الصافات آیت 44 ) ترجمہ : بے شک ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔

علامہ ابو بکر احمد بن علی المعروف خطیب بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت ایوب علیہ اسلام مسکینوں پر رحم کرتے ، یتیموں کی کفالت فرماتے ، بیواٶں کی امداد کرتے ، مہمانوں کے ساتھ عزت و تکریم اورخندہ پیشانی سے پیش آتے ، مسافروں کی خیر خواہی کیا کرتے ، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتے اور حقوق الہی کامل طریقے سے ادا کرتے تھے ( تاریخ الانبیإ للخطیب بغدادی ، باب فی ذکر قصة نبی اللہ ایوب الخ، ص 142 )

اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش آپ کے سب اموال ختم ہو گئے مویشی و چوپائے مر گئے ایک زوجہ کے علاوہ بقیہ اہل خانہ اور اولاد بھی دنیا سے چلے گئے حتی کے شدید مرض کر شکل میں آپ کے جسم مبارک کا امتحان شروع ہو گیا آزمائش و امتحان کا یہ سلسلہ کئی برس تک جاری رہا لیکن پے در پے مصائب و آلام کے باوجود آپ نے صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا اور جب بھی کوئی مصیبت آئے تو ان کی زبان سے ناشکری کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے کلمات ہی جاری ہوئے آپ کی آزمائش جس قدر ہوتی گئی استقامت میں بھی اسی قدر اضافہ ہوتا گیا آپ کا صبر ضرب المثل بن گیا بالآخر آپ علیہ اسلام نے بارگاہ الہی میں دعا کی جس سے آپ کی آزمائش ختم ہوئی اور صبر و شکر کے صلہ میں شفا کی نعمت ملی اور اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بھی زیادہ مال و اولاد عطا فرمادیئے اس کا تذکرہ قرآن پاک میں ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ ( پارہ 17 الانبیإ آیت 84 ) ترجمۂ کنزالایمان: تو ہم نے اس کی دعا سن لی تو ہم نے دور کردی جو تکلیف اسے تھی اور ہم نے اسے اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کئے اپنے پاس سے رحمت فرما کر اور بندگی والوں کے لیے نصیحت ۔

اللہ پاک ہمیں انبیإ کرام علیھم اسلام کی طرح آزمائش و مصیبت میں اپنا شکر ادا کرنے کی توفيق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی امین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم