اللہ پاک کے تمام نبی اللہ کی بارگاہ میں اپنا خاص مرتبہ اور مقام رکھتے ہیں اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائشیں بھی آتی ہیں اللہ پاک ان کو آجر بھی عطا فرماتا ہے آئیں انہی انبیاء کرام میں سے ایک حضرت ایوب علیہ السلام بھی ہے ان کا تذکرہ کرتے ہیں قرآن پاک سے ۔

(1) حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا: وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(83)

ترجمۂ کنز الایمان: اور ایوب کو جب اس نے ا پنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب مِہر والوں سے بڑھ کر مِہر والا ہے۔

تفسیر: اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر طرح کی نعمتیں عطا فرمائی تھیں، صورت کا حسن بھی، اولاد کی کثرت اور مال کی وسعت بھی عطا ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوآزمائش میں مبتلا کیا، چنانچہ آ پ کی اولاد مکان گرنے سے دب کر مر گئی، تمام جانور جس میں ہزارہا اونٹ اور ہزارہا بکریاں تھیں، سب مر گئے ۔ تمام کھیتیاں اور باغات برباد ہو گئے حتّٰی کہ کچھ بھی باقی نہ رہا اور جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان چیزوں کے ہلاک اور ضائع ہونے کی خبر دی جاتی تو آپ اللہ تعالیٰ کی حمد بجا لاتے اور فرماتے تھے’ میرا کیا ہے! جس کا تھا اس نے لے لیا، جب تک اس نے مجھے دے رکھا تھا میرے پاس تھا، جب ا س نے چاہا لے لیا۔ اس کا شکر ادا ہو ہی نہیں سکتا اور میں اس کی مرضی پر راضی ہوں ۔ اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیمار ہوگئے ، جسم کے کچھ حصے پر آبلے پڑگئے اور بدن مبارک سب کا سب زخموں سے بھر گیا ۔اس حال میں سب لوگوں نے چھوڑ دیا البتہ آپ کی زوجہ محترمہ رحمت بنتِ افرائیم نے نہ چھوڑا اور وہ آپ کی خدمت کرتی رہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ حالت سالہا سال رہی ، آخر کار کوئی ایسا سبب پیش آیا کہ آپ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔(حوالہ: سورۃ الانبیاء ،آیت نمبر .83)

(2)۔حضرت ایوب علیہ السلام کا اپنے رب کی بارگاہ میں رجوع کرنا جب شیطان نے آپ علیہ السلام کو تکلیف پہنچائی

وَ اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَۘ-اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ(41) ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو ہمارے بندہ ایوب کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذا لگادی۔

تفسیر: اس آیت میں حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ یاد دلایا جارہا ہے اور یہ وہ مبارک ہستی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کی آزمائشوں کے ساتھ خاص فرمایا۔ ان واقعات کو بیان کرنے سے مقصود ان کی سیرت میں غوروفکر کرنا ہے، گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کی جہالت پر صبر فرمائیں کیونکہ دنیا میں حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ مشقت اور آزمائش میں مبتلا ہونے والا کوئی نہ تھا،آپ ان انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اَحوال میں غور فرمائیں تاکہ آپ جان جائیں کہ دنیا کے احوال کسی کے لئے ایک جیسے نہیں ہوتے اور یہ بھی جان جائیں کہ عقلمند کو مشکلات پر صبر کرنا چاہئے۔

اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ: مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذاپہنچائی ہے۔} ایک قول یہ ہے کہ تکلیف اور ایذا سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیماری اور اس کے شَدائد مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بیماری کے دوران شیطان کی طرف سے ڈالے جانے والے وسوسے ہیں جو کہ ناکام ہی ثابت ہوئے۔ ( حوالہ سورتہ ص آیت نمبر 41)

(3)۔نیک لوگوں کا بدلہ :وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(84) ترجمہ کنزالایمان:

اور ہم نے انہیں اسحق اور یعقوب عطا کیے ان سب کو ہم نے راہ دکھائی اور ان سے پہلے نوح کو راہ دکھائی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو۔ (حوالہ سورت انعام، آیت نمبر 84)

(4)۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی طرف وحی خدا: اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ هٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَۚ-وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا(163) ترجمہ کنزالایمان: ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کو وحی کی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔ (حوالہ سورتہ النساء آیت نمبر 163)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی تمام آزمائشوں پر صبر کرنے اور حضرت ایوب علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ پاک کا شکر ادا کرنے کی سعادت عطا فرمائے آمین