ربا یعنی سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر ہے، حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہے فاسق مردود الشہادہ ہے۔ عقد معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو ایک طرف زیادتی ہو تو اس کے بدلے دوسری طرف کچھ نہ ہو اس کو سود کہتے ہیں۔

سود کے متعلق آیات مبارکہ:

1۔ ترجمہ: اے ایمان والو! دونا دون سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ فلاح پاؤ اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے تیار رکھی گئی ہے اور اللہ و رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

2۔ترجمہ: جو کچھ تم نے سود پر دیا کہ لوگوں کے مال میں بڑھتا رہے وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا اور جو کچھ تم نے زکوٰۃ دی جس سے اللہ کی خوشنودی چاہتے ہو وہ اپنا مال دونا کرنے والے ہیں۔

3۔ ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ و رسول کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں تمہارا اصل مال ملے گا، نہ دوسروں پر تم ظلم کرو اور نہ دوسرا تم پر ظلم کرے۔

احادیث میں سود کی مذمت:

1۔صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔

2۔ سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔

3۔ امام احمد و ابن ماجہ و بیہقی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔

4۔ ادھار میں سود ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی جبکہ جنس مختلف ہو۔

5۔ سود کو چھوڑ دو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔

قرض پر نفع لینا اور فتاویٰ اعلیٰ حضرت: فتاویٰ رضویہ شریف میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ قرض پر نفع لینے کے متعلق فرماتے ہیں: قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور بڑا حرام ہے۔

حدیث شریف میں ہے: قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔