سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر ہے، حرام سمجھ کر سود لینے والا فاسق مردود الشہادہ ہے، سود لینے والا، دینے والا اور گواہ بننے والا سب کو اس کا گناہ برابر ملے گا، حرام مال کا اگر ایک لقمہ پیٹ میں جائے گا تو 40 دن تک اس کی نماز قبول نہ ہوگی۔

سود پر فرامین مصطفیٰ:

1۔ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والوں، سود دینے والوں، سودی دستاویز لکھنے والوں اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔(انوار الحدیث، ص 287، حدیث: 1)

2۔ سود کا ایک درہم جو آدمی جان بوجھ کر کھائے اس کا گناہ 36 بار زنا کرنے سے زیادہ ہے۔(انوار الحدیث، ص 287، حدیث: 2)

3۔ سود کا گناہ ایسے 70 گناہوں کے برابر ہے جن میں سب سے کم درجہ کا گناہ یہ ہے کہ مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(انوار الحدیث، ص 287، حدیث: 3)

4۔ جو شخص کسی کو قرض دے اور پھر قرض لینے والا اس کے پاس کوئی ہدیہ اور تحفہ بھیجے یا سواری کے لیے جانور پیش کرے تو اس سواری پر سوار نہ ہو اور اس کا ہدیہ تحفہ قبول نہ کرے، البتہ قرض دینے سے پہلے آپس میں اس قسم کا معاملہ ہوتا رہا ہو تو کوئی حرج نہیں۔(انوار الحدیث، ص 288، حدیث: 4)

5۔ آج رات کو میں نے خواب میں دیکھا دو شخص (جبرائیل اور میکائیل) میرے پاس آئے اور مجھ کو ایک پاکیزہ زمین میں لے گئے، ہم چلے ایک خون کی ندی پر پہنچے تو اس میں ایک مرد کھڑا ہے اور نہر کے بیچ میں ایک شخص ہے جس کے سامنے پتھر رکھے ہیں وہ شخص جو ندی میں کھڑا تھا آنے لگا اس نے ندی سے باہر نکلنا چاہا وہیں اس شخص نے جو کنارے پر تھا اس کے منہ پر پتھر مارا وہ جہاں سے چلا تھا وہیں پلٹ گیا، اسی طرح ہر بار وہ باہر نکلنا چاہتا ہے یہ اس کے منہ پر پتھر مارتا وہ جہاں تھا وہیں لوٹ جاتا، میں نے پوچھا یہ ماجرا کیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہر میں جو کھڑا ہے وہ سود خور ہے۔(بخاری، 1/886-887، حدیث: 1956)

آپ نے سود کی مذمت پر چند حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں، سود سے باز رہنے کا حکم قرآن و سنت میں دیا گیا ہے، سود کی تو سخت وعیدیں ہیں، سود گناہ کبیرہ ہے، اب تو مسلمان یہ دیکھتا نہیں کہ اس کی روزی حلال ہے یا حرام، سب کو دیکھنا چاہیے کہ ان کی روزی کا ذریعہ ناجائز تو نہیں۔

اللہ پاک ہر مسلمان کو حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائے اور حرام سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین