رزق حلال اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت اور سببِ برکت ہے۔ جبکہ حرام کھانا عذاب الہی کو دعوت دینا اور خود پر قبولیت کے دروازے بند کرنا ہے اور اسی طرح باطل طریقے سے مال کمانا بھی اللہ کریم کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ5، النساء:29)اے ایمان والو! باطل طریقے سے آپس میں ایک دوسرے کے مال نہ کھاؤ۔

باطل طریقے سے مال کھانا کیا ہے؟ باطل طریقے سے مراد وہ طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے: سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم، جھوٹی وکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے باجے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔ یعنی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا، اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مار کے سودا بیچنا، ملاوٹ والا مال فروخت کرنا، قرض دبا لینا، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری اور پرچیاں بھیج کر ہراساں کر کے مال وصول کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ (اے ایمان والو!، ص 181)

احادیث مبارکہ:

1۔ مال حرام سراسر بر بادی: جو بندہ مال حرام حاصل کرتا ہے، اگر اس کو صدقہ کرے تو قبول نہیں اور خرچ کرے تو اسکے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ تعالیٰ برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، 2/ 33، حدیث: 3672)

2۔ جنت سے محروم جسم! اللہ پاک نے اس جسم پر جنت حرام کر دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، 8/2، حدیث: 9256)

3۔ مستجاب الدعوات ہونے کا عمل: اے سعد! اپنی غذا پاک کر لو! مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے۔ اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اسکے 40 دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم اوسط، 5/ 34، حدیث: 6495)

4۔ اس شخص کی دعا کیسے قبول ہوگی! سرکار دو عالم ﷺ نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یارب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور غذا حرام پھر اسکی دعا کیسے قبول ہوگی! (مسلم، ص506، حدیث:1015)

5۔ مال حرام کی مذمت اور مال حلال کی بشارت: دنیا میٹھی اور سر سبز ہے، جس نے اس میں حلال طریقے سے مال کمایا اور اسے وہاں خرچ کیا جہاں خرچ کرنے کا حق تھا تو الله اسے (آخرت میں) ثواب عطا فرمائے گا اور اسے اپنی جنت میں داخل فرمائے گا اور جس نے دنیا میں حرام طریقے سے مال کمایا اور اسے ناحق جگہ خرچ کیا تو اللہ اسے ذلت کے گھر (یعنی جہنم)میں داخل کردے گااور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مال میں خیانت کرنے والے کئی لوگوں کے لیے قیامت کے دن جہنم ہوگی۔ (شعب الایمان، 4/ 396، حدیث: 5527)