طلحہ خان عطاری ( درجہ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان
خلفائے راشدین بحریہ ٹاؤن ،راولپنڈی)
اللہ پاک فرماتا ہے : ترجمہ کنزالایمان : اور وہ جو ان کے
بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے
پہلے ایمان لائے۔
(پ 28،الحشر :10)
آیت سے ثابت ہوا کہ زندوں کی عبادت یعنی دعا سے مردوں کو فائدہ
پہنچتا ہے۔ یہی ایصالِ ثواب ہے۔ ایصالِ ثواب کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں ۔
1)صدقہ و خیرات : رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب میت کےگھر والے میت کی طرف سے صدقہ کرتے ہیں تو
جبریلِ امین علیہ السلام اس صدقہ کو نورانی طباق میں رکھ کر قبر کے کنارے کھڑے ہو
کر کہتے ہیں : اے قبر والے یہ تحفہ تیرے گھر والوں نے تجھے بھیجا ہے۔ تو یہ سن کر
وہ خوش ہوجاتا ہے۔ (روح البیان،4/322 ) گویا کہ صدقہ و خیرات کے ذریعے اپنے
مرحومین کو ایصالِ ثواب کیا جا سلتا ہے ۔
2) قربانی : قربانی کے ذریعے بھی اپنےمرحومین کو
ثواب ایصال کیا جاسکتا ہے ۔ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مینڈھا ذبح کرکے
یہ پڑھا :اےاللہ! اس کو میری اور میری آل اور میری امت کی طرف سے قبول فرما۔
(مسلم،2/156)( امت کی طرف سے ایک قربانی کرنا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا
خاصہ ہے)
3)دعا : اپنے مرحومین کے لئے دعائیں کرکے بھی انکو
ثواب پہنچایا جا سکتا ہے اور گناہ بخشواۓ جا سکتے ہیں کہ مدینے کے سلطان صلی اللہ علیہ وسلم کا
فرمان ہے : میری امت گناہ سمیت قبر میں داخل ہوگی اور جب نکلے گی تو بے گناہ ہوگی
کیونکہ وہ مومنین کی دعاؤں سے بخش دی جاتی ہے۔(معجم الکبیرالاوسط،ج:1،حدیث:1879)
4)
پانی : حضرتِ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سعد یعنی میری والدہ کا
انتقال ہو گیا ہے تو انکے لئے کون سا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا : پانی ۔ تو حضرت سعد
رضی اللہ عنہ نے کنواں کھدوایا اور کہا کہ یہ کنواں سعد کی ماں کی لئے ۔ (ابو داؤد
، ج2،حدیث :1681) یعنی اپنے مرحومین کو ایصالِ ثواب کے لئے پانی پلانے کا احتمام
بھی کیا جا سکتا ہے ۔
5)
تلاوت : قرآنِ مجید کی تلاوت کرکے ملنے والےثواب کو مرحومین کی
بارگاہ میں بھی پیش کیا جاسکتا ہےکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
کہ : جو شخص قبروں کے پاس سے گزرا اور قُل ھُوَاللّٰهُ أَحَد سورة گیارہ بار پڑھی پھر اسکا ثواب مردوں کو بخشا تو اس
بخشنے والے کو مُردوں کی تعداد کے برابر اجر وثواب ملے گا ۔
(شرح الصدور ،ص:130، التذکرہ القرطبی ، 1/97)