نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامل ومکمل نظرآئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مربیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے تمام ہی معلّمین آپ کے خوشہ چین نظر آئیں، آپ علیہ الصلاة والسلام کی ازدواجی زندگی کا جائزہ لیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے لیے بہترین شوہر ہیں، آپ کی مجاہدانہ وسپاہیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے بہادر آپ سے کوسوں دور ہوں گے، اسی طرح بچوں کے ساتھ آپ کے حسنِ سلوک کا جائزہ لیں تو آپ بہترین مربی بھی ہیں، نیز آپ سے زیادہ کوئی بچوں پر رحم کرنے والابھی نہ ہوگا، آپ نے بچوں کے ساتھ نرمی، محبت، عاطفت، ملاطفت کا درس نہ صرف اپنی تعلیمات ہی کے ذریعہ دیا بلکہ اپنے عمل سے بھی اس کا ثبوت پیش فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں اسی طرح آپ نے فرمایا: جو نرمی سے محروم ہے وہ تمام ہی خیر سے محروم ہے (صحیح مسلم)

بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے عطر بنیر سیرت کے چند نمونے ذیل میں مذکور ہیں:

اولاد واحفاد کے ساتھ سلوک :

آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرزند حضرت ابراہیم کا جب انتقال ہوا تو آپ بڑے غمزدہ تھے، آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، حضرت عبد الرحمن بن عوف نے تعجب خیز لہجہ میں استفسار کیا: آپ بھی رورہے ہیں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جواب دیا، اے ابن عوف یہ رحمت ہے، بلا شبہ آنسو بہہ رہے ہیں، دل غم زدہ ہے؛ لیکن اس حالتِ غم میں بھی ہم وہی بات کہیں گے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو۔

پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی سے غم زدہ ہیں اس صورتِ حال کو دیکھ کر حضرت انس نے فرمایا: اہل وعیال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشفق میں نے کسی کو نہیں دیکھا بچپن کا زمانہ بے شعوری وبے خیالی کا زمانہ ہوتا ہے، اس زمانہ میں بچے بڑوں کے رحم وکرم کے محتاج ہوتے ہیں، بچے انھیں کو اپنا محسن سمجھتے ہیں جو انھیں اپنے قریب رکھتے ہیں، تربیت کا جو حسین موقع قربت وانسیت سے ممکن ہے ڈانٹ ڈپٹ ، زجرو توبیخ سے اس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی ہے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ عمل یہی رہا کہ بچوں کو بالکل اپنے سے قریب رکھا حتی کہ بچوں کے کھیل کا بھی لحاظ کیا، اگر کسی موقع پر وہ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سوار ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ضرورت کی تکمیل کا بھر پور خیال رکھا ۔چنانچہ اپنے نواسوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھر پور محبت کا مظاہرہ فرمایا۔ حضرت عبد اللہ بن شداد اپنے والدسے نقل فرماتے ہیں: ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں حضرت حسن یا حسین کو ساتھ لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، درمیان نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ طویل فرمایا: حضرت شداد فرماتے ہیں کہ میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر سوار ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں ہیں، لہٰذا میں دوبارہ سجدے میں چلا گیا، جب نماز مکمل ہوگئی تو صحابہ کرام نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے دورانِ نماز سجدہ طویل فرمایا! ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ کوئی معاملہ پیش آیا ہے یا یہ کہ آپ پر وحی اتررہی ہے، آپ نے فرمایا:ان میں سے کوئی بات نہ تھی؛ بلکہ میرا بیٹا میری پشت پر سوار تھا، میں نے مناسب نہ سمجھا کہ بچہ کی ضرورت کی تکمیل سے پہلے سجدہ ختم کروں۔

اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو چوم رہے ہیں، یہ دیکھ کر کہنے لگے کہ حضور میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی کو نہیں چوما آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ۔

ایک د فعہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت حسن کو چوم رہے تھے ایک دیہاتی نے حیرت کا اظہار! کیا تو فرمایا کہ اگر اللہ نے تیرے دل سے رحمت کو نکال دیا تو میں کیا کرسکتا ہوں۔

غور کیجئے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ اپنی اولاد سے خود محبت فرمائی بلکہ امت کو بھی اس کی تعلیم دی، اور رحیمانہ سلوک کے ترک پر ترہیب ارشاد فرمائی کہ وہ شخص عند اللہ بھی قابلِ رحم نہیں، لہٰذا بچوں کے ساتھ مشفقانہ برتاوٴ ہمارا وطیرہ ہونا چاہیے۔

حضرت ابو ہریرة فرماتے ہیں: ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ کے گھر کے صحن میں بیٹھ کر حضرت حسن کے بارے میں دریافت کیا، تھوڑی ہی دیر میں وہ آگئے، آپ نے انھیں گلے سے لگایا، بوسہ دیااور فرمایا: اے اللہ! میں حسن سے محبت رکھتا ہوں تو بھی حسن سے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کا انتقال ہوا تو ان کی صاحبزادی امامہ سے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بہت زیادہ محبت کا اظہار فرماتے، ان پر بہت زیادہ شفقت فرماتے بعض دفعہ اپنے ساتھ مسجد بھی لے آتے، وہ آپ پر حالت ِ نماز میں سوار بھی ہوجاتیں، جب آپ سجدہ میں جاتے تو انھیں نیچے اتار دیتے، جب قیام فرماتے تو کاندھے پر سوار فرمالیتے۔

بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں کے پاس آتے، انھیں گود میں بٹھاتے، انھیں چومتے ان کے لیے دعا فرماتے، آپ نے اپنے نواسوں کے ذریعہ اپنی آل واولاد کے ساتھ رہنے کا طریقہ سکھلایا۔

دیگر بچوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل:

ہم بچوں سے محبت کرتے ہیں صرف اپنے ہی بچوں سے، دوسروں کے بچوں سے محبت یکسر نا پید ہے، آپ نے اس تفریق کا خاتمہ فرمایا، جہاں آپ نے اپنے بچوں کے تئیں تعلق کا اظہار فرمایا، وہیں دیگر صحابہٴ کرام کی اولاد پر بھی نگاہِ شفقت ڈالی۔

ابو موسی اشعری فرماتے ہیں کہ میرے گھر ایک لڑکا تولد ہوا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے در پر حاضر ہوا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کا نام ابراہیم رکھا، کھجورسے اس کی تحنیک (گھُٹّی) فرمائی، اور اس بچے کے لیے برکت کی دعافرمائی، یہ ابو موسی اشعری کے بڑے صاحبزادے تھے۔

حضرات صحابہٴ کرام کی عادتِ طیبہ یہ تھی کہ کسی کے گھر بھی ولادت ہوتی تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آتے آپ بچے کو لیتے، اسے چومتے اس کے لیے برکت کی دعا کرتے، اسی طرح جب بعض دفعہ دورانِ نماز بچے کے رونے کی آواز آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تخفیف فرمادیتے۔ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام خالد کو بلایا بذاتِ خود اس لڑکی کو خصوصی قمیص پہنائی، اور فرمایا: اس وقت تک پہنو کہ یہ پُرانی ہوجائے ۔ایک دفعہ آپ نے ایک بچے کو گود میں اٹھالیا، بچے نے کپڑے پر پیشاب کردیا، آپ نے اس پر پانی بہا کر صاف کرلیا۔(یعنی پاک کرنے ے طریقہ پر پاک کیا )

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، اس کانام ابو عمیر تھا، (اس کے پاس ایک چڑیا تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ابو عمیر سے فرمانے لگے: ”یَا أبَا عُمَیْر! مَا فَعَلَ الْنُغَیر؟“ یعنی اے ابو عمیر تمہاری چڑیا کیا ہوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشغولیت ومصروفیت کے باوجود صحابہٴ کرام کی اولاد کے ساتھ نرمی، محبت، انسیت اور الفت کا معاملہ فرماتے، انھیں خوش کرنے کی ترکیبیں اپناتے، ان کے پرندوں کے تئیں استفسار کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کردہ اس محبت بھرے جملے سے فقہاء عظام نے کئی مسائل نکالے ہیں۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں