اللہ سبحان و تعالی نے ہماری اتنی کوتاہیوں کے باوجودہمیں بےشمار نعمتوں سے نوازا ، اگر ہم جائزہ لیں تو لگے گا کہ ان سب نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہماری اولاد ہے ہمارے بچے ہمارے جسم کا ایک حصہ، ہمارے جگر کے ٹکرے ،گھر کے آنگن میں کھیلتے ہوئے اپنی ننھی مُنّی باتوں اور شرارتوں سے من کو بھاتے ہوئے عزیز از جان بن جاتے ہیں۔ مگر ہم میں سے اکثر ماں باپ یا تو بہت زیادہ لاڈ پیار سے ان کو بگاڑ دیتے ہیں یا ان پہ اتنی سختی کرتے ہیں کہ بچے ذہنی مریض بن جاتے ہیں ،پھر یا تو غلط کاموں میں پڑ جاتے ہیں یا پھر چپکے سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ہمیں اگر کہیں سے رہنمائی لینی ہے تو اس کے لئے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔

پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بچوں پر خصوصی شفقت فرماتے تھے جب سفر سے واپس آتے تھے تو بچے انکے استقبال کے لئے دوڑے جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ جاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پیار کرتے اور اپنے ساتھ سوار کر لیتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں پر خصوصی توجہ فرماتے انکی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا خیال رکھتے انکے کھیل کا بھی لحاظ کرتے نماز کی ادائیگی کے دوران ننھے منُےّ حسن و حسین سجدے کی حالت میں آپکی پیٹھ مبارک پہ سوار ہو جاتے تو اپ بجائے غصہ کرنے کے اپنے سجدے کو طویل فرما لیتے۔

اقرع بن حابس نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچے کو چوم رہے ہیں یہ دیکھ کر کہنے لگا حضور میرے دس بچے ہیں مگر میں نے کبھی ان سے پیار نہیں کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔(بخاری:5997)

محبوب خدا نہ صرف مسلمان بچوں بلکہ غیر مسلم بچوں کے ساتھ بھی نرمی والا معاملہ فرماتے تھے بے حد مصروفیت کے باوجود صحابہ کرام کی اولاد کے ساتھ بھی محبت و نرمی فرماتے اور ان کے شوق و مشاغل کے بارے میں بات چیت فرماتے آپ صلی علیہ وسلم نے خصوصی طور پر معاشرے کے کمزور طبقے پر رحم کی تلقین فرمائی اور اپنے عمل سے اسکی مثالیں پیش کیں اپنی امت کو نصیحت فرمائی ،بچوں کے حقوق اور تعلیم و تربیت میں کوتاہی سے پرہیز کرو ہمارے نبی پیارے نبی کی پوری زندگی ہمارے لئے مثال ہے ان کے فرمان پہ عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم ایک نسل کی پروش کریں تو یہی بچے نہ صرف ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنیں گے بلکہ محب وطن بنیں گے اور اخرت میں ہماری نجات کا ذریعہ بھی اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں